Maktaba Wahhabi

50 - 96
ہے کہ وہ محلِّ نظر ہے، لہٰذا یہ اثر قابلِ حجّت و استشہاد اور لائقِ اعتبار نہیں ہے ۔ التحفہ ۳؍ ۵۲۸۔ علّامہ البانی نے لکھا ہے کہ امام بخاری حماد کے بارے میں کبھی تو کہتے ہیں کہ وہ محلِّ نظر ہے اور کبھی اسے منکر الحدیث کہتے ہیں اور المذاہب للسیوطی ، مختصر علوم الحدیث لابن کثیر، التحریر لابن الہمام، الرفع و التکمیل لابی الحسنات لکھنوی اور تحفۃ الاحوذی علّامہ مبارکپوری کے حوالہ سے لکھا ہے کہ نہ ایسا راوی قابلِ اعتبار ہوتا ہے اور نہ ہی اسکی روایت لائقِ استشہاد ہوتی ہے ۔ اور دوسری بات یہ کہ محمد بن فضیل نے عدد کے سلسلہ میں حماد بن شعیب کی مخالفت کی ہے کیونکہ اسکے بیان کردہ اثر میں بیس کا لفظ نہیں ہے ۔ لہٰذا اس اصولِ حدیث کی روشنی سے یہ اثر منکر بھی ہوا ۔ نمازِ تراویح ص : ۷۴، ۷۵ ۔ص :۶۶،۶۷ عربی ۔ آٹھواں اثر : بیس تراویح کے سلسلے میں حضرت ابیّ بن کعب رضی اللہ عنہ سے بھی بعض آثار ملتے ہیں جن میں سے ایک اثر مصنف ابن ابی شیبۃ میں ہے جس میں عبد العزیز بن رفیع بیان کرتے ہیں : (کَانَ أُبَيُّ بْنُ کَعْبِ( رضی اللّٰه عنہ )یُصَلِّيْ بِالنَّاسِ فِيْ رَمَضَانَ بِالمَدِینَۃِ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَ یُوْتِرُ بِثَلَاثَۃٍ ) ’’حضرت ابیّ بن کعب رضی اللہ عنہ ماہ رمضان کے دوران مدینہ طیبہ میں لوگوں کو بیس رکعتیں پڑھایا کرتے تھے اور تین وتر ‘‘۔ تحفۃ الاحوذی ۳؍ ۵۲۸ ، نمازِ تراویح ص : ۷۵ ۔ص: ۶۷ عربی ۔ اس اثر کے بارے میں مولانا شوق نیموی حنفی نے لکھا ہے کہ عبد العزیز بن رفیع نے حضرت ابیّ بن کعب رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا اور علّامہ مبارکپوری لکھتے ہیں کہ اسکا معنیٰ یہ ہوا کہ یہ اثر منقطع ہے ۔ اور ضُعفِ انقطاع پر مستزاد یہ کہ یہ اثر اُس حدیث کے بھی خلاف ہے جس میں حضرت ابیّ بن کعب رضی اللہ عنہ کے اپنے گھر کی عورتوں کو آٹھ تراویح پڑھانے کا تذکرہ اور نبی ﷺ کا اس پر سکوتِ رضاء فرمانا وارد ہوا ہے ۔ ایسے ہی یہ اثر اس صحیح سند والے اثر کے بھی خلاف ہے جس میں ہے کہ حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت ابیّ بن کعب اور تمیم الداری رضی اللہ عنہما کو حکم فرمایا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعتیں (بشمول تین رکعاتِ وتر ) پڑھائیں جیسا
Flag Counter