Maktaba Wahhabi

51 - 96
کہ ان دونوں کی نصوص ذکر کی جاچکی ہیں ۔ تحفۃ الاحوذی ۳؍ ۵۲۸۔۵۲۹ ۔ علّامہ البانی نے عبد العزیز اور حضرت ابیّ بن کعب رضی اللہ عنہ کے ما بین پائے جانے والے انقطاع کی وضاحت کرتے ہوئے تہذیب التہذیب کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ان دونوں کی وفات کے مابین ایک سو سال کا فاصلہ ہے ۔(لہٰذا جب عبد العزیز کا حضرت ابی رضی اللہ عنہ کو پانا ہی ممکن نہیں تو پھر ان سے روایت کرنا کیا حیثیت رکھتا ہے ؟) ۔ نواں اثر : حضرت ابیّ بن کعب رضی اللہ عنہ کا یہ بیس تراویح پڑھانا ایک دوسری سند سے المختارۃ للضیاء المقدسی میں بھی مروی ہے جس میں ابو جعفر عن ربیع بن انس عن ابی العالیۃ کے طریق سے ابو العالیہ بیان کرتے ہیں : (أَنَّ عُمَرَ أَمَرَ أُبَیّاً أَنْ یُّصَلِّيَ بِالنَّاسِ فِيْ رَمَضَانَ ۔۔۔۔۔۔۔فَصَلَّی بِھِمْ عِشْرِینَ رَکْعَۃً ) ’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ رمضان میں لوگوں کو نماز پڑھاؤ ۔۔۔۔۔تو انھوں نے بیس رکعتیں پڑھائیں ‘‘۔ نمازِ تراویح ص : ۷۶ ، ص : ۶۹ عربی ۔ اس اثر کی سند بھی ضعیف اور اس کامتن منکر ہے ۔ اسکا راوی ابو جعفر جسکا نام عیسیٰ بن ابو عیسیٰ بن ماہان ہے۔ امام ذہبی نے اسے ضعیف راویوں میں شمار کیا ہے ۔ ابو زرعہ کہتے ہیں کہ وہ کثیر الوھم ہے ،امام احمد کبھی تو اسے غیر قوّی کہتے ہیں اور کبھی صالح الحدیث ۔ فلا س نے اسے سیٔ الحفظ (خراب حافظے والا) کہا ہے ۔ البتہ بعض محدّثین نے اسے ثقہ بھی قرار دیا ہے لیکن امام ذہبی الکنیٰ میں لکھتے ہیں کہ اس راوی کو تمام محدّثین مجروح قرار دیتے ہیں، حافظ ابنِ حجر نے التقریب میں سیٔ الحفظ اور علّامہ ابنِ قیّم نے اسے صاحب المناکیر ( منکر روایات بیان کرنے والا ) قرار دیا ہے۔ خصوصاً جب یہ کسی روایت کے بیان کرنے میں منفرد رہ جاتا ہے تو پھر اس روایت کو قابلِ صحّت ہر گز نہیں سمجھا جاتا ۔ للتفصیل: زاد المعاد ۱ ؍۲۷۵۔۲۷۶ ، التقریب ص : ۴۱۱۔ ۵۷۹ ، نمازِ تراویح ص : ۷۶۔ ۷۷ اردو ص : ۶۹،۷۰ عربی ۔
Flag Counter