Maktaba Wahhabi

54 - 96
موثوقِ اتقان و ضبط ہونے کی شکل میں اُسکا وہ اضافہ قبول کیا جائیگا ‘‘ ۔ اس اصول کی رو سے یہ بیس تراویح والی روایت حفظ و ضبط میں اولیٰ کی مخالفت کی بناء پر شاذ و مردود ہے اور یہ واضح بات ہے کہ علماء حدیث نے شاذ کو اسمیں پائی جانے والی خطا کے ظاہر ہونے کی وجہ سے ردّ کیا ہے اور جس میں کوئی خطا ثابت ہوجائے تو پھر یہ بات کیسے معقول ہوسکتی ہے کہ اس سے کسی دوسری روایت کو تقویت دی جائے ؟ لہٰذا ثابت ہوا کہ شاذ و منکر روایات تو معتد بہ ہی نہیں ہوتیں اور نہ ہی ان سے استشہاد کرنا صحیح ہے بلکہ شاذ کا وجود اور عدم وجود دونوں برابر ہیں ۔ اور آگے یزید ویحیٰ کی منقطع روایات کے بارے میں بھی بالتفصیل ثابت کیا ہے کہ وہ دونوں بھی اصولاً ایک دوسری کو تقویت پہنچانے کے قابل نہیں ہیں ۔ اور اس پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور امیر صنعانی رحمہما اللہ کے تائیدی و اصولی اقوال بھی نقل کیٔے ہیں ۔ آگے چل کر لکھا ہے : ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے متعلقہ روایات کے بارے میں جو کچھ ذکر کیا گیا ہے باکل یہی یا اس سے ملتی جلتی بات ہی حضرت علی اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی روایات کے بارے میں بھی کہی جائے گی بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ ان میں سے بعض سخت ضعیف ہیں جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی دوسرے طریق والی روایت (سابقۃ الذکر ساتواں اثر ) ہے ۔ اور وہ اس لائق نہیں کہ اس دوسرے طریق سے طریقِ اول تقویت اختیار کر سکے ۔‘‘ لتفصیل: صلوٰۃ التراویح ص : ۵۶ ۔ ۵۹۔ ہفت روزہ الاعتصام میں ایک استفتاء : قرآن کریم اور خصوصاً کتبِ حدیث میں بعض وجوہات کی بناء پر تحریف و تبدّل واقع ہوا یا بعض اہلِ علم نے اپنے نظریات کیلئے اسکا ارتکاب کیا ، اور یہ تحریفات کسی ایک جگہ نہیں بلکہ کئی جگہ اور کئی مسائل میں کی گئیں ، جن میں سے ہی ایک ’’مسئلہ تروایح ‘‘ سے متعلقہ ایک حدیث بھی ہے ۔
Flag Counter