Maktaba Wahhabi

70 - 96
(۴؍۷؍۱۷۸ )میں ،علاّمہ ہیثمی نے مجمع الزوائد (۳؍۱۷۲ )میں اور ملّا علی قاری نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ (۲؍۱۷۵ ) میں ذکر کیا ہے ۔ علّامہ مبارکپوری کی تحقیق : جبکہ علّامہ مبارکپوری لکھتے ہیں کہ یہ دعوی بالکل باطل ہے، کیونکہ خود علّامہ عینی نے عمدۃ القاری میں کہا ہے کہ عددِ رکعاتِ تراویح کے بارے میں بکثرت اقوال پائے جاتے ہیں اور امام مالک رحمہٗ اللہ نے کہا ہے کہ واقعہ حرہ سے پہلے یعنی تقریباً ایک سو اور چند سال سے زیادہ عرصہ سے لیکر آج تک مدینہ منورہ میں اڑتیس رکعاتِ تراویح اور ایک رکعت وتر پر عمل ہوتا آرہا ہے ، جبکہ خود اپنے لیٔے امامِ دار الہجرۃ حضرت امام مالک رحمہٗ اللہ نے گیارہ رکعتیں اختیار فرمائیں۔ اور معروف فقیہہ اسود بن یزید چالیس رکعاتِ تراویح اور سات رکعاتِ وتر پڑھا کرتے تھے ۔ اور ان کے علاوہ باقی اقوال بھی پیشِ نظر رکھیں جو علّامہ عینی نے ذکر کیٔے ہیں (جنکے بارے میں اس موضوع کے شروع میں اشارہ کیا جاچکا ہے ) ۔ اب ان سب اقوال کو پیشِ نظر رکھ کر ہمیں کوئی بتائے کہ بیس تراویح پر اجماع کہاں ہوا ؟ اور تمام شہروں میں اس پر عمل برقرار کیسے رہا ؟ تحفۃ الاحوذی ۳ ؍ ۵۳۱ ۔ ۵۳۲ ۔ شیخ البانی کا نظریہ : علّامہ مبارکپوری کے اس اجماع کو بالکل باطل قرار دینے کا تذکرہ کرنے کے بعد شیخ البانی لکھتے ہیں کہ اسکی مزید تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اگر اجماع کا یہ دعوی صحیح ہوتا تو متاخرین فقہاء اسکی مخالفت نہ کرتے حالانکہ تراویح کے بارے میں آٹھ سے کم اور زیادہ دونوں قسم کے اقوال پائے جاتے ہیں لہٰذا صرف کسی کتاب میں اجماع کا ذکر کردینے سے اجماع ثابت نہیں ہوجاتا اور پھر جب کسی ایسے اجماع کی حقیقت معلوم کرنے کیلئے جستجو کی جاتی ہے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اجماع کے بارے میں ایسے اکثر دعوے غلط ہیں مثلاً بعض لوگ تین رکعات وتر پر اجماع کے مدّعی ہیں ،حالانکہ بکثرت صحابہ رضی اللہ عنہم سے
Flag Counter