Maktaba Wahhabi

72 - 96
اعتدال اختیار کرنا اور انصاف کی بات کہنا کارے دارد ۔ غرض کسی مسئلہ میں صرف آئمہ اربعہ کے اتفاق کرلینے کو اجماع قرار دینا ان آئمہ واہلِ علم کے ساتھ ناانصافی ہے جو کہ خود اُن آئمہ اربعہ کے عہد میں علمی جاہ و جلال رکھتے تھے اور انکے علم و فضل کا طنطنہ چار دانگِ عالم میں پھیلا ہوا تھا‘‘ ۔ مقدمہ السراج الوہّاج فی کشف مطالب صحیح مسلم ابنِ الحجّاج ۱ ؍ ۳، بحوالۂ سابقہ ص : ۷۹۔۸۰ ،ص :۷۲۔۷۳ عربی امام شوکانی کا نقطۂ نظر : عموماً جب بعض کتب میں ’’اجماع ‘‘ کی بحث کو دیکھا جاتا ہے تو قاری اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ جس نے اجماع کو نقل کیا ہے اسے اس مسئلہ میں اختلاف کا علم ہی نہیں ہوسکتا اور ظاہر ہے کہ ناقل کے عدمِ علم سے اختلاف کا عدمِ وجود تو ہرگز لازم نہیں آتا ، زیادہ سے زیادہ اُس اجماع کو ظن کے ساتھ تعبیر کیا جاسکتا ہے اور ظن کو اجماع کی دلیل قرار دینا صحیح نہیں جبکہ ظن حجّت ہی نہیں اور اجماع حجّت ہے لہٰذا کسی ایک شخص کے ظن سے پوری امّت کو کسی فعل کا پابند کیسے بنایا جاسکتا ہے ؟ المختصر جس اجماع کی بنیاد ظنی قضایا پر استوار ہوگی ایسے اجماع کو ٹھکرانے میں کسی پس وپیش سے ہر گز کام نہ لیا جائے ،جبکہ جمہور علماء اصول کا کہنا ہے کہ اجماع میں اخبارِ آحاد کو بھی شرف قبولیّت سے نہیں نوازا جائیگا ۔ بحوالہ نمازِ تراویح ص : ۸۰۔۸۱ ، ملخصاً ۷۳۔۷۴ عربی، وبل الغمام حاشیہ شفاء الاوام للشوکانی اس موضوع کی مزیدتفصیل التقریب للقاضی ، حصول المامول للشوکانی، دلیل الطالب للنوّاب اور احکام الاحکام لابن حزم وغیرہ کتب میں دیکھ سکتے ہیں ۔ خلاصۂ کلام : سابقہ گفتگو کا خلاصہ یہ ہوا کہ بیس تراویح پر اجماع کا دعوی ٰ بلادلیل ہونے کی وجہ سے باطل ہے اور اس عدد پر استمرار ودوام کا دعویٰ بھی اسی قبیل سے ہے۔اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح سند کے ساتھ گیارہ رکعتیں
Flag Counter