Maktaba Wahhabi

91 - 96
اللیل )ادا کرتے ہیں ، انفرادی طور پر تو یہ فعل بڑا ہی کارِ ثواب ہے ،البتہ بالالتزام و باجماعت اسکا ثبوت نہیں ملتا ،اس سلسلہ میں ہفت روزہ ’’اہلحدیث ‘‘ لاہور کی دو قسطوں میں مولانا عبید اللہ عفیف کا ایک مضمون بلکہ فتویٰ شائع ہوا ہے جسکی افادیت کے پیش نظر ہم اُسے یہاں نقل کر رہے ہیں : سوال : کیا فرماتے ہیں علماء کرام ،محقّقین اور محدّثین اس مسئلہ کے بارے میں کہ نمازِ تراویح کے بعد باجماعت نوافل پڑھانے شریعتِ محمدیہ ﷺ کی رو سے جائز ہیں یا کہ نہیں؟ اگر کوئی عالمِ دین رمضان المبارک کی راتوں میں اہتمام کے ساتھ باجماعت نوافل پڑھاتا ہے تو کیا وہ نبی ﷺ کی سنّت کی خلاف ورزی کرتا ہے ؟ کیا وہ بدعت کرتا ہے یا نہیں ؟شریعتِ محمدیہ کی رُو سے بدعتی کہلائے گا یا نہیں؟ ( سائل : عبد الحفیظ ) ۔ الجواب بعوان الوہّاب : صورتِ مسئولہ میں واضح ہوکہ یہاں دو باتیں قابلِ لحاظ ہیں : اوّل یہ کہ نفل باجماعت ادا کرنا ، دوسرے یہ کہ نفل نماز کی جماعت کا اہتمام اور اس پر دوام اور اصرار یعنی خاص وقت یا معین مہینہ میں اس کا خصوصی اہتمام اور اس پر دوام و اصرار ۔ جہاں تک پہلی بات کا تعلّق ہے تو یہ بلا شبہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے ۔ جیسا کہ صحیح بخاری صحیح بخاری ص: ۸۷میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک رات اپنی خالہ محترمہ ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا جب تہجد کے لیٔے رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے تو ہم نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ۔ اور اسی طرح صحیح بخاری ص : ۵۸ بَابُ صَلوٰۃِ النَّوَافِـلِ جَمَاعَۃً وَ ذَکَرَہٗ أَنَسٌ وَ عَائِشَۃُ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ میں جناب محمود بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہم کا واقعہ منقول ہے ۔
Flag Counter