Maktaba Wahhabi

127 - 285
اسماعیل قاضی نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے قبل اور ہجرت کے بعد بھی اپنی بعض بیٹیوں کا نکاح کیااور ہجرت کے بعد کے احکام ثابت ا ور پختہ ہوگئے اور یہ معلوم نہ ہوسکا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی کوہجرت کے بعد نکاح کرکے دیاہو جس کا اس سے پہلے خاوند نہ ہو۔مگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا۔کیونکہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا عتبہ بن ابی لہب کی بیوی تھی جس کواس نے مکہ میں طلاق دے دی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نکاح مکہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کردیا اور زیادہ مناسب یہ ہے کہ جوحسن سے روایت کیاجاتاہے کہ آپ نے اپنی دونوں بیٹیوں کا نکاح کردیا مگر ان سے مشورہ نہیں لیا اس سے مراد سیدہ ام کلثوم ہو،کیونکہ اس کے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بغیر کسی کا بھی آپ نے ہجرت کے بعد نکاح نہیں کیا،تواسماعیل قاضی کی روایت ابن وضاح کی اس روایت کےخلاف ہے جس کو’’ اس کے دونوں بیٹوں سے‘‘روایت کیاگیا ہے۔ ابن قتیبہ نے المعارف میں لکھاہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کی شادی مدینہ میں ہوئی،پھر اس کے بعد سیدہ ام کلثوم کی شادی بھی ان سے مدینہ میں ہی ہوئی تھی۔عتبہ نے سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا سے اور عتیبہ نے سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہاسے نکاح کیاتھامگر دخول سے پہلے ہی ان دونوں کوانہوں نے طلاق دے دی۔ جس عورت کا خاوند دخول سے پہلے ہی فوت ہوجائے تواس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ سیدنا علی اور سیدنا زید رضی اللہ عنہ سے اس بارہ میں نسائی کی کتاب میں اور مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ ابراہیم نخعی علقمہ سے وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ اگر کوئی آدمی کسی عورت سے شادی کرے اور اس کا حق مہر مقرر نہ کیاہو اور نہ ہی اس سے دخول کیاہو اور وہ فوت ہوجائے تواس کے لیے کیاحکم ہے ؟ توسیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مسئلہ پوچھنے والے کوایک مہینہ تک بغیر فتویٰ دیے واپس موڑتے
Flag Counter