Maktaba Wahhabi

133 - 285
غائب خاوند پر بیوی کے نفقہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافیصلہ اور ان پر اکٹھی خدمت کیسے ہوگی بخاری ومسلم میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سےروایت ہے کہ ہند بنت عتبہ آئی اور کہنے لگی کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ ایک کنجوس آدمی ہے۔ایک دوسری حدیث میں ہے بخیل آدمی ہے مجھے اور میرے بچوں کواتناخرچہ نہیں دیتا جو ہمیں کافی ہومگر جوکچھ میں اس کی بے علمی میں اس کے مال سے لے لوں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "خُذِي مَا يَكْفِيكِ بِالْمَعْرُوفِ" [1] جوتجھے کافی ہو وہ اچھے طریقے سے لے لیاکر۔ اس حدیث سے مسئلہ معلوم ہوا کہ غیر موجود شخص کے خلاف فیصلہ دینا درست ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر باب بھی اسی طرح باندھا ہے جس کے الفاظ میں "القضا علی الغائب " انہوں نے یہ باب بھی باندھا ہے کہ جب تہمت اور بدگمانی کا ڈر نہ ہواور معاملہ مشہور ہوتو لوگوں کے معاملات میں قاضی اپنے علم سے فیصلہ کرسکتا ہے اور جس سے اس کاحق روک دیاگیا ہوتووہ شخص اس حق روکنے والے سے اپنے حق کے برابر اس کی بے علمی میں بھی لے سکتا ہے۔ اس مسئلہ میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھیوں میں اختلاف ہے۔الواضحہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا خدمت اور گھر کے کام کاج کے متعلق ایک دوسرے کی شکایت لے کر گئے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ذمہ گھر کے داخلی کام اور باطنی خدمات لگائیں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ذمہ ظاہری کام کاج لگائے۔
Flag Counter