Maktaba Wahhabi

77 - 285
سےخمس نہیں نکالا۔ اوس چونکہ ان کے حلیف تھے،اس لیے انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے متعلق بات کی کہ یہ لوگ ہمیں بخش دیجیے،تو نبی صلی اللہ وسلم نے ان کا فیصلہ اوس کے سردار سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ پر چھوڑ دیا تو سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے جنگجو مار دیے جائیں ،عورتیں اور بچے قید کرلیے جائیں اور ان کے اموال مسلمانوں میں تقسیم کیے جائیں اور ان کے اموال مسلمانوں میں تقسیم کیے جائیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" لَقَدْ حَكَمْتَ فِيهِمْ بِحُكْمِ الْمَلِكِ مِنْ فَوْقِ سَبْعَةِ أَرْقُعَةٍ"تو نے وہ فیصلہ کیا جو سات آسمانوں پر بادشاہ نے فیصلہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آگئے اوران کے لیے حکم دیا گیا کہ ان کو مدینہ لایا جائے،پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور عام صحابہ کرام بیٹھ گئے اور تھوڑے تھوڑے کر کے انہیں نکالا گیا اورلے جاکران کی گردنیں اڑائی گئیں ۔یہ چھ اور سات سو کے درمیان تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے ریحانہ بنت عمر و کو پسند کیا اور غنیمتوں کا حکم دیا گیا تو وہ اکھٹی کی گئیں ،سامان اورقیدیوں میں سے خمس نکال کر باقی تمام مال بولی پر فروخت کرکے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا گیا۔کل تین ہزار اور بہتر حصے ہوئے،گھوڑے کے دو حصے اور سوار کا ایک حصہ۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کچھ کو آزاد کررہے تھے اور کچھ کو بخش رہے تھے اور کچھ کو خادم بنارہے تھے،مالک نے المستخرجہ میں اسی طرح کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریظہ کی غنیمت سے خمس نکالا اور بنونضیر کی غنیمت سےخمس نہیں نکالا۔[1] فتح کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امان دینے کا فیصلہ مؤطا،بخاری مسلم اور نسائی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح کے سال مکہ میں داخل ہوئے توآپ کے سر پر خول تھا اور جب اس کو اتارا توآپ کے پاس ایک آدمی آیا،وہ کہنے
Flag Counter