Maktaba Wahhabi

100 - 625
اس حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے برتنوں میں دھوئے بغیر کھانے سے منع فرمایا تھا،جو ان کے نجس اور ناپاک ہونے کی دلیل ہے۔ جائزہ: اس کا جواب جمہور نے یہ دیا ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ان کے برتن دھونے کا حکم اس لیے نہیں دیا تھا کہ یہ اُن کے جُھوٹے ہیں اور وہ نجس ہیں،لہٰذا یہ برتن بھی نجس ہیں،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں برتنوں کو دھونے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ وہ اپنے برتنوں میں خنزیر کا گوشت کھاتے اور شراب پیتے تھے اور یہ دونوں چیزیں چونکہ حرام ہیں،اس لیے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے برتنوں کو دھونے کا حکم فرمایا تھا،جس کا ثبوت صحیح بخاری،سنن ابی داود و ترمذی اور مسند احمد میں حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ کے اپنے بیان میں موجود ہے۔وہ فرماتے ہیں: ﴿إِنَّ أَرْضَنَا أَرْضَ أَہْلِ الْکِتَابِ وَإِنَّہُمْ یَأْکُلُوْنَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَیَشْرَبُوْنَ الْخَمْرَ فَکَیْفَ نَصْنَعُ بِآنِیَتِہِمْ وَقُدُوْرِہِمْ؟[1] ’’ہم اہلِ کتاب کے علاقے میں رہتے ہیں اور وہ خنزیر کا گوشت کھاتے اور شراب پیتے ہیں،ہم ان کے برتنوں اور ہنڈیوں کا کیا کریں؟‘‘ تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دھو کر استعمال کرنے کا حکم فرمایا۔اس طرح بات بالکل واضح ہوگئی کہ یہ دھونے کا حکم ان نجاستوں کی وجہ سے تھا نہ کہ اہلِ کتاب کے جُھوٹے اور ان کے نجس ہونے کی وجہ سے،لہٰذا اس حدیث سے ان کا استدلال درست نہیں۔ اس دلیل کا دوسرا جواب یہ بھی ہے کہ اگر برتنوں کو دھونے کا حکم کفّار اہلِ کتاب کے نجس عین ہونے کی وجہ سے ہوتا تو پھر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے دوسرے برتنوں کی عدم موجودگی کے ساتھ مشروط ہی نہ کرتے،کیوں کہ جو برتن نجس ہو،اس کی نجاست کا ازالہ کر دینے کے بعد اس میں اور دُوسرے غیر نجس برتن میں تو کوئی فرق ہی نہیں رہتا،لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ حکم محض صفائی کے لیے تھا نہ کہ اُن کے نجس ہونے کی وجہ سے۔[2]
Flag Counter