Maktaba Wahhabi

118 - 625
انھیں مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ٹھہرایا گیا،جو مسلمانوں کے لیے انتہائی عزت کا مقام تھا۔ غیر مسلموں کے لیے صرف نبیِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے رواداری اور حسنِ سلُوک کی یہ تابناک مثالیں قائم نہیں کیں،بلکہ اسلام ا ور نبیِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں نے بھی اس سلسلے میں بے نظیر عملی نمونے پیش کیے ہیں،جن کی ضیا باریوں اور ضو افشانیوں میں عقائد و اعمال کی ظلمتوں کا راہی آج بھی جادئہ حق کو تلاش کر سکتا ہے۔ خلفاے راشدین کی تاریخ اٹھایئے۔ان کے عہدِ زرّیں کا مطالعہ کیجیے۔سیرتِ فارُوق رضی اللہ عنہ پر اچٹتی ہوئی طائرانہ نظر ہی ڈال کر دیکھیں،آپ کو قدم قدم پر انسانی ہمدردی کی مثالیں ملیں گی اور آپ کو یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگے گی کہ آج یو۔این۔او یا اقوامِ متحدہ،جس انسانی منشور پر بڑی نازاں ہے،یہ ہمارے اسلاف کے حسین نامۂ اعمال کاعُشرِ عشیر بھی نہیں۔ 6۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ضعیف و معذور مسلمانوں کو بیت المال سے وظیفے دیے تو اپنی مملکت میں رہنے والے غیر مسلم معذور و محتاج ذمیوں کے لیے بھی مسلمانوں کی طرح ہی بیت المال سے باقاعدہ وظیفے مقرر کیے۔ 7۔ خلفاے راشدین،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اسلافِ امت کی تاریخ مواسات و مدارات اور حسنِ معاملات سے بھری پڑی ہے،البتہ ترکِ موالات کے قرآنی ضابطے کو کسی حالت میں بھی انھوں نے فراموش نہیں کیا۔[1] تخلیقِ انسانی کا بنیادی مقصد اور عدمِ موالات میں شدت کی وجہ: مسلم اور غیر مسلم افراد کے باہمی تعلّقات کی کُل چار ہی نوعیتیں ہیں جن میں سے تین قسم کے تعلقات تو بعض حالات میں بعض شرائط کے ساتھ جائز ہیں۔صرف ایک ہی درجہ ایسا ہے جو کسی حالت اور کسی شکل میں بھی جائز نہیں اور وہ موالات یا دِلی محبت کا درجہ ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ آخر قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے کفّار کی موالات اور قلبی دوستی و محبت سے اتنی شدّت کے ساتھ کیوں روکا ہے اور اس میں آخر کیا حکمت ہے؟ اس کا جواب پانے کے لیے سب سے پہلے ہمیں تخلیقِ انسانیت کے بنیادی مقصد کی تعیین کرنا ہوگی۔
Flag Counter