Maktaba Wahhabi

211 - 625
شروع میں ’’بسم اللّٰه ‘‘ پڑ ھنے کے واجب ہونے پر دلالت کر تی ہیں اور بظاہر اسحاق بن راہویہ اور ایک روایت میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس کے واجب ہونے کے قائل ہیں۔ظاہریہ کے نزدیک مطلقاً واجب ہے،جب کہ دیگر کے نزدیک یاد ہونے کی شکل میں واجب ہے،ورنہ نہیں(یعنی اگر بھولے سے چھوٹ جائے تو وضو ہو جائے گا۔جان بوجھ کر نہ چھوڑے) جب کہ حنفیہ،شافعیہ،امام مالک اور ربیعہ اور جمہور نے اسے سنت قرار دیا ہے۔[1] امام نسائی،ابن خزیمہ اور بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی اُس حدیث سے ’’بسم اللّٰه ‘‘ کہنے کے استحباب پر استدلال کیا ہے،جس میں ایک معجزے کا بیان ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ نے پانی تلاش کیا،مگر پانی نہ ملا تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے کسی کے پاس تھوڑا سا پانی ہے؟(اور جب کسی کے پاس تھوڑا سا پانی مل گیا تو ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک اس پانی والے برتن میں ڈال دیا اور فرمایا: ﴿تَوَضَّؤُوْا بِسْمِ اللّٰہ[2] ’’بسم اللہ پڑ ھ کر وضو کرنا شروع کرو۔‘‘ یہ حدیث اور یہ واقعہ یا معجزہ صحیح بخاری و مسلم میں بھی مذکور ہے۔[3] دورانِ وضو کی دوسری دعائیں: وضو شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ تو ضرور ہی پڑھ لینی چاہیے،کیوں کہ تکمیلِ وضو کے ساتھ ساتھ یہ باعثِ برکت بھی ہے۔ 1۔ ’’معجم طبراني صغیر‘‘ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں صرف بسم اللہ نہیں،بلکہ ’’بسم اللّٰه و الحمد للّٰه‘‘ ہے اور ان کلمات کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔’’مجمع الزوائد‘‘ میں علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ذکر کرکے اسے حسن قرار دیاہے،مگر حافظ ابنِ طاہر اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اسے منکر قرار دیا ہے۔[4] لہٰذا صرف بسم اللہ کہنے پر اکتفا کرنا ہی بہتر ہے۔
Flag Counter