Maktaba Wahhabi

224 - 625
خلال کے طریقے پر مشتمل دوسری حدیثِ انس رضی اللہ عنہ کو بھی شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’إرواء الغلیل‘‘(1/ 130) اور ’’تحقیق المشکاۃ‘‘(1/ 129) میں صحیح قرار دیا ہے۔لہٰذا ڈاڑھی کے خلال کی مشروعیت بلاشبہہ ثابت ہوگئی۔ 6۔کُہنیوں سمیت دونوں ہاتھ دھونا: پہلے دائیں ہاتھ کو کہنی سمیت دھوئیں اور پھر بائیں ہاتھ کو بھی کہنی سمیت دھوئیں۔ہاتھوں کو کُہنیوں سمیت اور پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھونا تو نصِ قرآنی کی رُو سے بھی فرض ہے،جیسا کہ آیت اور اس کا ترجمہ ذکر کیا جا چکا ہے۔البتہ اگر کوئی شخص کُہنیوں سے بھی آگے تک بازو اور ٹخنوں سے بھی آگے تک پِنڈلیاں دھونا چاہے تو یہ مستحب ہے،کیوں کہ صحیح بخاری ومسلم شریف،مسندِ احمد اور سنن بیہقی میں مروی ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ وضو کرنے لگے تو جب انھوں نے اپنا منہ اچھی طرح دھولیا اور دایاں ہاتھ دھویا تو کہنی سے بھی او پر تک بازو کو دھونے لگے،پھر جب بایاں ہاتھ دھویا تو کہنی سے بھی اوپر تک بازو کو دھونے لگے اور سرکا مسح کیا اور دایاں پاؤں دھویا،تو ٹخنے سے اوپر پنڈلی تک دھونے لگے اور پھر جب بایاں پاؤں دھویا تو اس کے ٹخنے سے بھی اوپر تک پنڈلی دھوئی اور پھر کہا: ﴿ھٰکَذَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَتَوَضَّأُ ’’میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے۔‘‘ اس طرح وضو کر کے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿أَنْتُمُ الْغُرُّ الْمُحَجَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ إِسْبَاغِ الْوُضُوْئِ [1] ’’قیامت کے دن تم لوگ پوری طرح وضو کرنے کی بدولت چمکتے ہوئے ہاتھوں اور پیروں والے اور روشن چہروں والے ہو گے۔‘‘ مدرج جملہ: اس حدیث میں آگے یہ الفاظ بھی ہیں جو کہ مدرج ہیں:
Flag Counter