Maktaba Wahhabi

236 - 625
کانوں کا مسح کرنے کے لیے نیا پانی لینا اب رہا معاملہ کانوں کے مسح کے لیے پانی کا تو اس سلسلے میں سنن ابو داود،ترمذی،ابن ماجہ اور مسندِ احمد میں ایک حدیث مروی ہے،جس کے موقوف یا مرفوع ہونے میں قدرے اختلاف ہے۔البتہ اکثر اہلِ علم کا قول یہ ہے کہ یہ مرفوعاً نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ﴿اَلْأُذُنَانِ مِنَ الرَّأسِ[1] ’’کان سر ہی کا حصہ ہیں۔‘‘ یعنی ان کا بھی سر کی طرح ہی مسح کیا جا ئے گا نہ کہ انھیں منہ کی طرح دھویا جائے گا۔کانوں کے سر کا حصہ ہونے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سر کے مسح والے بچے ہوئے پانی سے کانوں کا مسح بھی کیا جاسکتا ہے۔نیا پانی لینے کی ضرورت نہیں،جب کہ سنن بیہقی اور مستدرکِ حاکم کی ایک روایت حضرت عبداللہ بن زائد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جس میں وہ بیان کر تے ہیں: ﴿إِنَّہٗ رَأیَ النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَأْخُذُ لِأُذُنَیْہِ مَائً ا غَیْرَ الَّذِیْ اَخَذَہٗ لِرَأْسِہٖ [2] ’’انھوں نے دیکھا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نوں کے مسح کے لیے سر کے مسح والے پانی کے علاوہ نیا پانی لیتے تھے۔‘‘ امام مالک،احمد،شافعی اور ابو ثور رحمہم اللہ کے نزدیک اس حدیث کی بنا پر کانوں کے مسح کے لیے نیا پانی لینا چاہیے۔یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے۔[3] تو گو یا ان دونوں طریقوں کے دلائل ہی موجود ہیں۔سر کے مسح سے بچی ہوئی تری سے مسح کرنے اور نیا پانی لینے پر دلالت کرنے والی مستدرک حاکم کی روایت کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بظاہر صحیح کہا ہے اور بیہقی والی روایت کو امام بیہقی نے صحیح قرار دیا ہے۔[4]
Flag Counter