Maktaba Wahhabi

275 - 625
کرچکے ہیں) آگے موصوف لکھتے ہیں: ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے طبرانی میں جو روایت نقل کی گئی ہے،جو ان کی طرف سے بالوں کو جوڑنے کی رخصت پر دلالت کرتی ہے،وہ باطل ہے،کیوں کہ یہاں بخاری شریف میں دلہن کو بھی بال جوڑنے کی اجازت نہ دینے والی حدیث شاہد ہے کہ وہ رخصت و اجازت کی قائل نہیں تھیں۔‘‘[1] حرمت و لعنت کا سبب: وِگ کے استعمال کی حرمت یا مصنوعی جُوڑوں پر لعنت فرمائے جانے کی وجہ دراصل دجل و فریب،دھوکا دہی اور تغییر خلق اللہ ہے،خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فیشن یا فعل کو ’’زُور‘‘ یعنی جھوٹ اور فریب سے تعبیر فرمایا ہے،جیسا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں گزرا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر قسم کی جعل سازی اور فریب کاری سے بھی سختی سے منع فرمایا ہے،جیسا کہ صحیح مسلم،سنن ابو داود،ترمذی،ابن ماجہ،مستدرکِ حاکم،سنن بیہقی،مسندِ احمد اور بعض دیگر کتبِ حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک واقعہ مذکور ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر غلّے کے ایک ڈھیر کے قریب سے ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک اس ڈھیر کے اندر گھُسا دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کو نمی سی لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلّے والے سے پُوچھا کہ معاملہ کیا ہے تو اس نے بتایا کہ اسے آسمان سے یہ نمی(بارش یا شبنم کی وجہ سے) پہنچی ہے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿أَفَلاَ جَعَلْتَہٗ فَوْقَ الطَّعَامِ کَیْ یَرَاہُ النَّاسُ؟ ’’تم نے یہ گیلا غلّہ اُوپر کیوں نہ ڈال دیا،تاکہ لوگ اسے دیکھ لیتے؟‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مشہور و معروف الفاظ ارشاد فرمائے،جو زبان زدِ خاص وعام ہیں اور صحیح مسلم،مسند ابی عوانہ اور سنن ابی داود میں مروی ہیں: ﴿مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنَّا﴾ ’’جس نے دھوکا دیا،وہ مجھ سے نہیں۔‘‘ صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت اور سنن ابن ماجہ میں یہ الفاظ منقول ہیں: ﴿مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّي﴾ ’’جس نے دھوکا دہی کی،وہ ہم سے نہیں۔‘‘
Flag Counter