Maktaba Wahhabi

304 - 625
کے آثار نقل کرکے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی عدمِ وجوب ہی کا فیصلہ دیا ہے۔[1] البتہ امیر صنعانی کا رجحان ’’سبل السلام‘‘(1/ 1/ 50) میں وجوب کی طرف ہے۔الغرض اعضاے وضو کو دھوتے وقت ترتیب کا خیال رکھنا چاہیے۔وجوباً نہیں تو استحباباً اور ندباً ہی سہی۔وضو کی جو مسنون کیفیت بیان کی جاچکی ہے،اس کے مطابق جب پوری طرح وضو سے فارغ ہوجائیں،یعنی پاؤں دھو کر یا ان پر مسح کرکے کھڑے ہوں تو اب یہاں تین کام کرنے ثابت ہیں: 1۔ ایک آدھ گھو نٹ پانی پینا۔ 2۔ مردوں کے لیے شرم گاہ پر پانی کا چھینٹا مارنا۔ 3۔ تکمیلِ وضو کی دعا کرنا۔ بلکہ ان میں یہاں تین اور مسائل کا اضافہ بھی کر لیں۔ایک وضو کر کے تو لیے وغیرہ سے ہاتھ پونچھنا،دوسرا دو رکعتیں ’’تحیۃ الوضوء‘‘ کے طور پر پڑھنا اور تیسرا تیمم کا طریقہ و مشروعیت ہے۔آئیے یکے بعد دیگر ے ان تینوں بلکہ چھے امور کی کچھ تفصیل دیکھیں۔ ایک آدھ گھونٹ پانی پینا: یہ تو معروف ہے کہ بیٹھ کر ہی کھانا اور پینا چاہیے۔یہ بات کھا نے پینے کے آداب میں سے شمار ہوتی ہے اور اس کی بڑی تاکید بھی آئی ہے۔ 1۔ مثلاً صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ﴿إِنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم زَجَرَ عَنِ الشُّرْبِ قَائِمًا [2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے ڈانٹا ہے۔‘‘ 2۔ صحیح مسلم ہی میں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ﴿إِنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم نَھٰی عَنِ الشُّرْبِ قَائِمًا [3]
Flag Counter