Maktaba Wahhabi

367 - 625
بغلوں والی حدیث کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اگر یہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے تھا تو اس موقع کے بعد جو تیمم صحیح سند سے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے،وہ اس کا ناسخ ہوگا اور اگر وہ بغلوں والا طریقہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بغیر(محض لوگوں کی مرضی سے) واقع ہوا تو وہ حجت نہیں،کیوں کہ حجت تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یا حدیث ہے۔‘‘ آگے لکھتے ہیں: ’’صحیحین کی احادیث میں مروی صرف ہاتھوں تک کے مسح کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی اسی کا فتویٰ دیا کرتے تھے اور راویِ حدیث ہی مرادِ حدیث کو سب سے بہتر سمجھنے والا ہوتا ہے،خصوصاً جب کہ وہ صحابی مجتہد بھی ہو۔‘‘[1] قیاسی دلیل: کہنیوں تک ہاتھ پھیر نے کی ایک دلیل عقلی اور قیاسی بھی ہے کہ جب وضو کے لیے کہنیوں کو دھونا شرط ہے تو اسی بنا پر قیاس کر تے ہوئے تیمم میں بھی کہنیوں تک ہاتھوں کو پھیرنا چاہیے،لیکن یہ ایک نصِ صریح و صحیح کے مقابلے میں قیاس ہے،لہٰذا فاسد الاعتبار ہے۔[2] کیوں کہ نص کے مقابلے میں قیاس جائز ہی نہیں،لہٰذا قیاسی دلیل قابلِ اعتبار ہی نہ ہوئی۔اس کے علاوہ بعض دیگر قیاس آرائیاں اور صحیحین کی حضرت عمار رضی اللہ عنہ سے مروی احادیث کی تاویلیں اور انھیں قبول کرنے میں عذر و معذرت کی چارہ سازیاں بھی کی گئی ہیں۔جنھیں فقہ حنفیہ کی کتاب ’’السعایۃ‘‘ میں نقل کر کے خود مولف مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ ہی نے ان کا تنقیدی جائزہ لے کر انھیں ردکیا ہے،لہٰذا وہ تفصیل وہیں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔اسے بلا تنقید و تبصرہ علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے ’’تحفۃ الأحوذي‘‘(1/ 448،449،450) پر بھی نقل کیا ہے،جو قابلِ مطالعہ ہے،مگر ہم بہ خوفِ طوالت اسے ذکر نہیں کر رہے۔وفیما ذکرناہ کفایۃ إن شاء اللّٰه۔
Flag Counter