Maktaba Wahhabi

374 - 625
’’اللہ تعالیٰ کے ارشاد {فَتُصْبِحَ صَعِیْداً زَلَقًا﴾[الکھف: 40] کی رو سے صعید کا معنیٰ روے زمین ہے۔‘‘ ماہرینِ لغت کے ایک بورڈ نے ’’المعجم الوسیط‘‘ کے نام سے ایک ڈکشنری ترتیب دی ہے،اس میں بھی صعید سے مراد روے زمین اور مٹی لکھا گیا ہے اور بطورِ استشہاد آیتِ تیمم کے الفاظ: {فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا﴾[النساء: 43] بھی نقل کیے ہیں۔[1] ماہرِ لغت علامہ احمد رضا نے ’’معجم متن اللّغۃ‘‘(3/ 453،طبع بیروت) میں لکھا ہے: ’’صعید کا معنیٰ زمین،زمین کا بالائی حصہ یا وہ حصہ ہے،جس میں ریت یا کلّر شامل نہ ہو یا روے زمین یا پاکیزہ زمین اور ہر پاک مٹی اور غبار والی مٹی اور راستے کو بھی صعید کہتے ہیں۔‘‘ راجح بات: اس ساری تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ صعید کے لغوی معنیٰ میں نزاع کی وجہ سے اس مسئلے میں بھی نزاع ہے کہ تیمم کے لیے صرف مٹی ہی ضروری ہے یا زمین کے تمام اجزا سے تیمم جائز ہے؟ البتہ اس سلسلے میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی جیسے کبار علما کی تحقیق یہ ہے کہ اگر کسی کو مٹی دستیاب ہو تو اس کے لیے اسی سے تیمم کرنا متعین ہے۔اس کے لیے کسی دوسری چیز سے تیمم روا نہیں،کیوں کہ ائمہ لغت کے نزدیک صعید سے مراد مٹی ہے اور مٹی سے تیمم بالاتفاق جائز ہے،لہٰذا ایک یقینی امر کو قابلِ احتمال امر کی بنا پر کیسے ترک کیا جاسکتا ہے؟ ہاں جسے مٹی دستیاب نہ ہو تو وہ ریت پر یا پتھر پر تیمم کر کے ہی نماز پڑھ لے،کیوں کہ بعض علماے لغت کے نزدیک یہ بھی صعید کے مدلول میں شامل ہے،لیکن جس شخص کو پتھر اور ریت بھی نہ ملے تو وہ کسی بھی چیز سے تیمم کر سکتا ہے،جن کا ذکر لفظ صعید کی تشریح میں گزرا ہے۔(مثلاً چونا،کلّر،سرمہ اور ہڑتال وغیرہ) البتہ تیمم کے بغیر وہ نماز نہ پڑھے،لیکن اگر کسی کو ان میں سے کوئی ایک چیز بھی میسر نہیں تو اسے اجازت ہے کہ وہ بلا طہارت ہی نماز پڑھ لے۔واﷲ أعلم۔[2] جیسا کہ انتہائی نادر بلکہ نا ممکن سی صورت کے ضمن میں ہم تفصیل ذکر کر چکے ہیں۔امام
Flag Counter