Maktaba Wahhabi

471 - 625
حاشیے میں لکھا ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایذاے مسلم کی نسبت کرنے والی اس روایت کا من گھڑت ہونا بڑا واضح اور ظاہر ہے۔غرض ایذاے مسلم کا ناقضِ وضو ہونا ثابت نہیں،البتہ اگر کو ئی شخص وضو کرلے تو اچھا ہے،جیسا کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل سے پتا چلتا ہے،لیکن یہ واجب نہیں ہے۔ 11۔صلیب اور صنم کو چھونا: جن امور سے وضو نہیں ٹوٹتا اور نہ ان سے وضو ٹوٹنے کی کوئی دلیل ہے،ان میں سے گیارھویں اور آخری چیز صلیب اور صنم کو چھونا ہے،یعنی اگر کوئی شخص عیسائیوں کے مخصوص مذہبی شعار یعنی صلیب یا سولی کو چھولے،جسے کراس بھی کہا جاتا ہے یا پھر بُت پرستوں کے کسی بت یا مورتی کو ہاتھ لگالے،تو اس سے بھی وضو ٹوٹنے کی کوئی صریح دلیل نہیں ملتی،اگرچہ ان اشیا کو نجس قرار دیا گیا ہے،لیکن ان کی نجاست معنوی ہے،حسی اور ظاہری نہیں،البتہ مصنف عبدالرزاق رحمہ اللہ کے حوالے سے علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ ذکر کیا ہے کہ انھوں نے مستورد عجلی کو توبہ کرائی تو اس کے گلے میں جو صلیب تھی اسے چھوا،پھر جب نماز شروع کی تو کسی دوسرے آدمی کو آگے بڑھایا اور خود وضو کرنے چلے گئے،بعد میں لوگوں کو بتایا کہ انھوں نے یہ وضو کسی حدث کی وجہ سے نہیں کیا،بلکہ دراصل انھوں نے اس نجس چیز کو چھوا تھا: ’’فَأَحَبَّ أَنْ یُّحْدِثَ مِنْہَا وُضُوْء اً‘‘[1] ’’تو انھیں یہ محبوب معلوم ہو اکہ اس سے وہ ازسرِ نو وضو کرلیں۔‘‘ اس اثر کے الفاظ سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ناقضِ وضو نہیں،بلکہ یہ محض ان کا اپنا اجتہاد و استحباب تھا،اگرچہ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے نماز منقطع کر کے جانے کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نظریہ وجوب ہی محسوس کیا ہے۔ اس سلسلے میں ایک مرفوع روایت بھی ہے،جس میں حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ﴿إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَمَرَ بُرَیْدَۃَ،وَقَدْ مَسَّ صَنَماً،فَتَوَضَّأَ[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا تو انھوں نے وضو کیا،کیوں کہ انھوں
Flag Counter