Maktaba Wahhabi

478 - 625
سورۃ الفجر کے شروع میں ہے: ﴿ وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ﴾[الفجر: 1 تا 3] ’’قسم ہے فجر کی۔اور دس راتوں کی۔اور جفت و طاق(یوم نحر اور یومِ عرفہ) کی۔‘‘ سورۃ القدر میں اسی مبارک رات کے فضائل بیان کرتے ہوئے آخری آیت میں فرمایا ہے: ﴿سَلٰمٌ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ﴾[القدر: 5] ’’یہ شب امن و سلامتی والی ہے طلوعِ فجر(صبح نکلنے) تک۔‘‘ اسی پر بس نہیں،بلکہ قرآنِ کریم کے دیگر کئی مقامات بھی ایسے ہیں،جہاں کسی نہ کسی انداز میں ان نمازوں کا ذکر آیاہے۔مثلاًسورۃ النور(آیت: 36 اور 58) سورۃ الانعام(آیت: 52) سورۃ الکہف(آیت: 28) سورۃ الرعد(آیت: 15) سورت قٓ(آیت: 39) سورت یوسف(آیت: 16) سورت آلِ عمران(آیت: 3) سورت صٓ(آیت: 18) سورۃ الغافر(آیت: 55) اور سورت مریم(آیت: 11) میں دیکھا جاسکتا ہے۔سورۃ العصر کی پہلی آیت میں ہے: ﴿والعصر﴾ یہاں زمانے کے ساتھ نمازِ عصر بھی مراد ہے۔ قرآنِ کریم کے ان دس مقامات کا تھوڑی سی توجہ سے مطالعہ کیا جائے تو ہماری پنج گانہ نمازوں کے نہ صرف یہ کہ کسی حد تک نام مل جاتے ہیں،بلکہ ان کے اوقات کا بھی پتا چل جاتا ہے،جس کی تفصیل کتبِ تفسیر میں موجود ہے۔مفسرینِ کرام نے ان آیات کی تفسیر میں نمازوں کے اوقات وغیرہ پر کس طرح استدلال کیا ہے اور ان کے قوی دلائل کون کون سے ہیں؟ اگر ان سب امور سے متعلقہ اقتباسات بھی ذکر کیے جائیں تو بات لمبی ہو جاتی ہے،لہٰذا ہم ان اشاروں ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ اوقاتِ نمازِ پنج گانہ؛ حدیث شریف کی روشنی میں: قرآنِ کریم کے متعدد مقامات کے حوالے سے نمازِ پنج گانہ کے اوقات کا اجمالی سا تذکرہ ہوچکا ہے،جب کہ اس اجمال کی تفصیل نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں فرما دی ہے۔ہر نماز کا نام،اس کا اوّل و آخر وقت اور دیگر مسائل بھی تعلیم فرمائے ہیں،جو آج کتبِ حدیث کے بیش بہا خزانوں کی شکل میں تقریباً ہر زبان میں ترجمے کے ساتھ موجود ہیں۔ان میں سے سنن ترمذی،نسائی،دارقطنی،بیہقی،مسند احمد،صحیح ابن حبان اور مستدرک حاکم میں ایک حدیث ہے،جس کے بارے میں امام ترمذی رحمہ اللہ
Flag Counter