Maktaba Wahhabi

518 - 625
مروی ہیں اور ابھی ہم نے ذکر کی ہیں اور ان کے علاوہ بھی متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث اسی مفہوم کی کتبِ حدیث میں موجود ہیں،[1] ان سب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اگلی نماز تک پچھلی نماز کے وقت کی توسیع کے عموم کو یہ خاص کر دیتی ہیں اور عشا کا آخری وقت نصف شب تک طے کر دیتی ہے۔ علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے ترمذی شریف کی بے نظیر شرح ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ میں فجر تک نمازِ عشا کا وقت ماننے والوں کے دلائل کا بھرپور جائزہ لیا ہے اور یہ فیصلہ دیا ہے کہ صحیح و صریح احادیث کی رُو سے عشا کا آخری وقت آدھی رات تک ہی ہے۔[2] اس مسلک کی تائید موطا امام مالک،معانی الآثار طحاوی اور محلیٰ ابن حزم میں صحیح سند کے ساتھ مروی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس مکتوبِ گرامی سے بھی ہوتی ہے،جس میں انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا تھا: ’’وَأَنْ صَلِّ الْعِشَائَ مَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ ثُلُثِ اللَّیْلِ،وَإِنْ أَخَّرْتَ فَإِلٰی شَطْرِ اللَّیْلِ وَإِلَّا تَکُنْ مِنَ الْغَافِلِیْنَ‘‘[3] ’’نمازِ عشا ایک تہائی رات تک پڑھ لیا کرو،اگر اس سے بھی تاخیر کرو تو آدھی رات تک پڑھ لیا کرو،وگرنہ تم غافلوں میں سے ہوجاؤ گے۔‘‘ کتبِ حدیث میں مروی بعض احادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندازہ ہوتا ہے کہ نمازِ عشا کو موخر کرکے ادا کرنا چاہیے۔لیکن اس کے اوّل و آخر وقت میں سے کون سا افضل ہے اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ کیا تھی؟ اب اس کا مختصر تذکرہ ملاحظہ فرمائیں۔ نمازِ عشا کا افضل وقت: اوقات نمازِ پنج گانہ کے سلسلے میں نمازِ عشا کے وقت کی تعیین بھی احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رو سے ذکر کی جا چکی ہے اور یہ بات بھی گزر چکی ہے کہ نمازِ عشا کا وقت غروبِ شفق سے شروع ہو جاتا ہے اور نصف شب تک رہتا ہے،جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے:
Flag Counter