Maktaba Wahhabi

538 - 625
باب میں ہے اور اس سے اگلے باب میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی ایک حدیث مروی ہے،جس میں دیگر امور کے علاوہ یہ بھی مذکور ہے: ﴿إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم نَھٰی عَنِ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّیٰ تَطْلُعَ الشَّمْسُ،وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّیٰ تَغْرُبَ الشَّمْسُ[1] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ فجر کے بعد سورج طلوع ہو جانے تک نماز سے منع فرمایا اور عصر کے بعد سے لے کر غروبِ آفتاب تک کے دوران میں نماز پڑھنے سے بھی منع فرمایا۔‘‘ حدیثِ ثالث: صحیح بخاری و مسلم،سنن نسائی،ابن ماجہ،بیہقی اور مسند احمد میں اسی مفہوم کی ایک تیسری حدیث حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے،جس میں وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ﴿لَا صَلَاۃَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّیٰ تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ،وَلَا صَلَاۃَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّیٰ تَغِیْبَ الشَّمْسُ[2] ’’نمازِ فجر کے بعد سورج چڑھ آنے تک کو ئی نماز نہیں اور عصر کے بعد بھی کوئی نماز نہیں،جب تک کہ سورج غروب نہ ہو جائے۔‘‘ اسی مفہوم و موضوع کی کئی دیگر احادیث بھی متعدد و صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں،جن کی بنا پر جمہور اہلِ علم کا مسلک ہے کہ ان اوقات میں نمازِ فجر پڑھنا مکروہ ہے۔امام نووی رحمہ اللہ نے تو شرح صحیح مسلم میں اس کراہت پر اجماع کا دعوی کیا ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں: اس بات پر پوری امت کا اجماع ہے کہ ان اوقات میں کوئی بھی غیر سببی نماز پڑھنا مکروہ ہے،البتہ فرائض کے جواز پر اتفاق ہے۔سببی نفلی نمازوں کو ادا کرنے کے جواز اور کراہت میں اختلاف ہے،جیسے ’’تحیۃ المسجد‘‘ سجدۂ تلاوت،سجدۂ شکر،نمازِ عید،نمازِ کسوف(سورج گرہن کی نماز) نمازِ جنازہ اور فوت شدہ نمازوں کی قضا ہے۔
Flag Counter