Maktaba Wahhabi

549 - 625
حضرت ابن مسیب رحمہ اللہ کی یہ بات پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ کوئی عمل چاہے نماز اور ذِکرِ الٰہی کی قبیل ہی سے کیوں نہ ہو،جب وہ اس انداز اور اوقاتِ سنت کے مخالف ہو تو وہ ثواب کے بجائے عذاب کا موجب ہوگا۔ تحیۃ المسجد اذانِ فجر کے بعد: یہ تو عام نوافل کے بارے میں حکم ہے،البتہ بعض محققین نے ایک شکل میں تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں ادا کرنے کی اس وقت بھی اجازت دی ہے،لیکن اس شکل کو سمجھنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رہے کہ اگر فجر کی اذان سن کر کسی نے وضو کیا اور مسجد میں آیا۔جماعت کھڑی ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی ہے تو اسے چاہیے کہ ایسے میں وہ تحیۃ المسجد ادا کرنے میں مشغول نہ ہو،بلکہ وہ فجر کی دو سنتیں پڑھ لے،فجر کی یہی سنتیں تحیۃ المسجد سے بھی کفایت کر جائیں گی،لہٰذا علاحدہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔یہ اس طرح ہے،جیسے حجۃ الوداع کے موقع پر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد حرام میں داخل ہو کر طواف شروع کر دیا تھا۔تحیۃ المسجد کی نماز بھی اس میں شامل ہو گئی تھی۔البتہ اگر کوئی شخص صبح کی دو سنتیں گھر میں ادا کر کے مسجد میں آتا ہے اور جماعت کھڑی ہونے میں ابھی کچھ وقفہ ہے تو و ہ تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں پڑھ کر ہی بیٹھے،کیوں کہ صحیح بخاری مسلم اور سنن ابی داود میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ نبوی ہے: ﴿إِذَا جَآئَ أَحَدُکُمْ الْمَسْجِدَ فَلْیُصَلِّ سَجْدَتَیْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَّجْلِسَ ’’جب تم میں سے کو ئی شخص مسجد میں آئے تو چاہیے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھ لے۔‘‘ اِس حدیث کے عموم کی رو سے ایسا شخص اس وقت بھی دو رکعتیں پڑھ سکتا ہے،بلکہ اس حدیث کے عموم کے پیشِ نظر تمام اوقاتِ مکروہہ میں ان دو رکعتوں کی اجازت دی گئی ہے،اس موضوع کی تفصیل ’’تحیۃ المسجد‘‘ کے ضمن میں آتی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل از فرائض اذانِ فجر کے بعد صرف دو سنتیں ہی ثابت ہیں،لہٰذا تحیۃ المسجد کی یہ دو رکعتیں اس سنت پر اضافہ ہوں گی،جو صحیح نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اضافہ اس صورت میں ہوگا،جب نئے سرے سے کوئی یہ دو رکعتیں پڑھنے لگے،یعنی مسجد میں بیٹھا تھا،پھر کھڑے ہو کر دو رکعتیں پڑ ھنے لگا اور پھر سنتیں پڑھیں،جب کہ اذان ہو چکی ہے۔اس
Flag Counter