Maktaba Wahhabi

550 - 625
طرح توبہ ناجائز ہے،لیکن اگر دخولِ مسجد کی وجہ سے ادا کرے تو یہ نماز ہوگی جو جائز ہے،جیسے باہر سے آنے والا تحیۃ المسجد ادا کرتا ہے۔ ہمارے استاذ شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ صاحب مدنی حفظہ اللہ کا فتویٰ بھی یہی ہے،جو ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور(جلد 42،شمارہ 39،بابت 28؍ ستمبر 1990ء الموفق ربیع الاول 1411ھ) میں شائع ہوچکا ہے۔ اور ’’الکافي‘‘ لابن عبد البر میں ہے: ’’وَمَنْ أَتَی الْمَسْجِدَ وَقَدْ رَکَعَ رَکْعَتَيِ الْفَجْرِ فِيْ بَیْتِہِ،فَإِنْ شَآئَ رَکَعَ الرَّکْعَتَیْنِ تَحِیَّۃَ الْمَسْجِدِ وَإِنْ شَآئَ جَلَسَ وَکُلُّ ذٰلِکَ مَبَاحٌ لَہٗ وَقَدْ قِیْلَ لَا یَرْکَعُھُمَا،وَکِلَاھُمَا صَحِیْحٌ عَنْ مَالِکٍ،وَالْأُوْلٰی أَوْلٰی وَأَحْفَظُ إِنْ شَآئَ اللّٰہُ‘‘[1] ’’جو شخص گھر میں صبح کی دو رکعتیں،یعنی سنتیں پڑھ کر مسجد میں آئے۔اگر وہ چاہے تو تحیۃ المسجد پڑھ لے اور اگر چاہے تو بغیر(تحیۃ المسجد) پڑھے(مسجد میں) بیٹھ جائے۔یہ سب کچھ اس کے لیے مباح و جائز ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ تحیۃ المسجد پڑھ لے۔یہ دونوں(عمل) امام ما لک کے نزدیک صحیح ہیں اور پہلی بات(تحیۃ المسجد کو پڑھنا) زیادہ بہتر اور زیادہ محفوظ ہے،اِن شاء اللہ۔‘‘ نمازِ وتر،طلوعِ فجر کے بعد: طلوعِ صبح صادق کے بعد اور نمازِ فجر سے پہلے پہلے عام نوافل ادا کرنے میں اگرچہ حضرت حسن بصری،امام شافعی رحمہ اللہ اور علامہ ابن حزم رحمہم اللہ کے نزدیک جائز ہے،لیکن اس سلسلے میں صحیح ترین بات وہی ہے،جو ذکر کی چکی ہے کہ فجر کی سنتوں یا ایک مخصوص شکل میں تحیۃ المسجد کے علاوہ عام نوافل جائز نہیں ہیں۔امام مالک رحمہ اللہ نے طلوعِ فجر کے بعد وتر ادا کرنے کو جائز قرار دیا ہے اور دلیل کے طور پر کئی آثار نقل کیے ہیں،مثلاً: ان کے بلاغات میں سے ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما،قاسم بن محمد اور حضرت عبداللہ بن عامر بن ربیعہ رحمہم اللہ نے طلوعِ فجر کے بعد وتر پڑھے۔[2] حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:
Flag Counter