Maktaba Wahhabi

560 - 625
پڑجانے تک نماز پڑھی جاسکتی ہے۔علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی یہی مسلک اختیار کیا ہے اور دیگر محدّثین میں سے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا بھی اختیار یہی ہے،جیسا کہ ان کی تبویب(2/ 265) سے ظاہر ہے۔دورِ حاضر کے معروف محدث علامہ البانی نے بھی اس اس کی تائید کی ہے۔[1] اس مسلک کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے ثابت ہے کہ وہ نمازِ عصر کے بعد دو رکعات پڑھا کرتے تھے،حتیٰ کہ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے ’’المحلی‘‘ میں چاروں خلفاے راشدین اور متعدد کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کے اسماے گرامی ذکر کیے ہیں،جو عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔جسے تفصیل مطلوب ہو،وہ محلی ابن حزم دیکھ سکتا ہے۔[2] یہ تو عصر کے بعد دو رکعتوں سے متعلق ہوا،جب کہ موذنِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے ’’المحلّٰی‘‘ ہی میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’’لَمْ یُنْہَ عَنِ الصَّلَاۃِ إِلَّا عِنْدَ غُرُوْبِ الشَّمْسِ‘‘[3] ’’عصر کے بعد نماز سے منع نہیں کیا گیا،سوائے غروب آفتاب کے قریبی وقت کے۔‘‘ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے مروی اس اثر سے اصل موضوع کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ عصر کے بعد سے مراد: اس اطلاق و تقیید کی بحث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ نمازِ عصر کے بعد والی ممانعت مطلق نہیں ہے،بلکہ سورج کے بلند نہ ہونے یا زرد ہو جانے سے مقید ہے،جیسا کہ بعض کبار ائمہ کا مسلک ہے۔ ہاں اگر اسے معروف فقہی مسلک کے مطابق مطلقاً ممنوع ہی مان لیا جائے کہ عصر کے بعد نوافل وغیرہ مطلقاً منع ہیں،سورج بلند ہو یا زرد ہوچکا ہو تو اس اطلاق و عموم کی صورت میں اس ممانعت کا تعلق نمازِ عصر ادا کرنے سے ہوگا نہ کہ دخولِ وقت سے،کیوں کہ فجر کے ساتھ تعلق رکھنے والی ممانعت کو دخولِ وقت سے متعلق قرار دیا گیا ہے کہ طلوعِ فجرکے بعد نفلی نماز منع ہے۔سوائے دو سنتوں
Flag Counter