Maktaba Wahhabi

580 - 625
’’جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور حسبِ امکان طہارت ونظافت کا اہتمام کرے،تیل لگائے یا اپنے گھر سے خوشبو لگائے اور پھر جمعہ کے لیے نکلے اور(مسجد میں بیٹھے ہوئے) دو آدمیوں میں تفریق نہ کرے(یعنی اکٹھے بیٹھے ہوؤں کے درمیان گھس کر انھیں الگ الگ نہ کر دے) پھر وہ جتنی اس کی قسمت میں لکھا ہے،نفلی نماز پڑھے اور پھر جب امام خطبہ شروع کرے تو اسے خاموشی سے بہ غور سنے تواس کے دوسرے جمعہ تک تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ اس حدیث میں دلیل ہے کہ مسجد میں پہنچنے والے کے لیے جتنی استطاعت ہو،نماز پڑھنا مندوب ہے اور اس سے ممانعت اس وقت تک نہیں،جب تک کہ امام خطبہ کے لیے نہ آئے۔کئی حضرات،جن میں سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور ان کی متابعت میں،امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی ہیں،کا کہنا ہے کہ امام کا لوگوں کے سامنے نکل آنا نماز سے منع کرتا ہے اور اس کا خطبہ شروع کرنا بات چیت سے مانع ہوتا ہے،گویا سلف صالحین نے امام کے نکلنے کو نماز سے مانع قرار دیا ہے نہ کہ سورج کے سر پر آنے کو(یعنی زوال کا وقت ہونے کو نماز سے مانع نہیں قرار دیا گیا)۔ دوسری دلیل: جمعہ کے دن زوال کے وقت بھی نوافل کے جائز ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ مسجد میں لوگ چھتوں کے نیچے ہوتے ہیں اور انھیں زوال کے وقت کا پتا نہیں چل سکتا اور وہ آدمی جو نفلی نماز میں مشغول ہے،اسے کیا معلوم کہ کب زوال کا وقت ہو گیا اور اس کے لیے یہ بھی ممکن نہیں کہ لوگوں کی گردنوں کو پھلانگتا ہوا باہر نکلے،سورج کو دیکھے اور پھر لوٹ جائے اور نہ یہ اس کے لیے مشروع ہے۔ جمعہ کے دن وقت زوال کی عدمِ کراہت کی دلیل سنن ابی داود والی حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث بھی بن سکتی ہے،کیوں کہ اگرچہ امام ابو داود رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ مرسل ہے،جس کی وجہ یہ ہے کہ ابو خلیل کا حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے سماع(سننا) ثابت نہیں ہے،لیکن جن کی مرسل کے مطابق صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل بھی ہوا اور قیاس سے بھی اس تائید ہوتی ہو،یا کسی صحابی کا قول اس کا مؤید ہو یا ارسال کرنے والا راوی اساتذہ کے اختیار میں اور ضعفا و متروکین سے روایت بیان نہ کرنے میں معروف ہو یا ایسی ہی کوئی دوسری صورت ہو،جس سے اسے قوت ملتی ہو تو ایسی مرسل روایت پر بھی عمل کیا جائے گا۔
Flag Counter