Maktaba Wahhabi

583 - 625
(جس میں لوگ دو رکعت نماز پڑھتے ہیں اور صحیح بخاری و دیگر کتبِ حدیث میں ان دو رکعتوں کے جواز کا ثبوت موجود ہے)۔[1] بہر حال اصلی اوقاتِ نماز کی مناسبت سے جو مکروہ اوقات ہیں،ان کی طرح ہی ان مکروہ مواقع کی تفصیل میں جانا شاید سردست باعثِ ثقل ہو،لہٰذا ہم صرف اتنا کہنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں کہ نماز کی اقامت اور جماعت کے دوران میں سنتیں پڑھنا یقینا مکروہ ہے۔اس وقت فوراً جماعت میں شامل ہو جانا چاہیے۔اس کی کچھ تفصیل تو نمازِ فجر کے بعد والے وقتِ کراہت کے ضمن میں گزری ہے اور مزید تفصیل کا موقع نمازِ پنج گانہ کی سنتوں کے موضوع میں آئے گا۔اُسی مقام پر خصوصاً نمازپنج گانہ سے متعلقہ غیر موکدہ سنتوں کے ضمن میں اذانِ مغرب اور جماعت کے مابین دو رکعتوں کے جواز کی تفصیل بھی ذکر کی گئی ہے۔ جب خطیب خطبہ شروع کر چکا ہو تو بھی عام نفلی نماز شروع کرنا مکروہ ہے۔ہاں تحیۃ المسجد کے طور پر صرف مختصر سی دو رکعتیں پڑھ لینا چاہیے،کیوں کہ ان دو رکعتوں کو کثیر فقہا کے نزدیک وجوب کا درجہ حاصل ہے،اس بات کے دلائل اور تفصیل ’’مسائل و احکامِ جمعہ‘‘ اور ’’تحیۃ المسجد‘‘ کے موضوعات میں ہیں۔نمازِ جمعہ کے بعد اُٹھ کر چار یا دو رکعتیں پڑھی جاسکتی ہیں۔لوگوں کے چلے جانے تک نوافل کی کراہت کے واضح دلائل ہمیں نہیں مل سکے کہ جن سے یہ کراہت ثابت ہوتی ہو۔ کراہت میں تفاوت: اوقاتِ مکروہہ کا موضوع ختم کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کی وضاحت بھی کر دی جائے کہ نمازِ پنج گانہ کے اصل اوقات کی مناسبت سے جو پانچ اوقاتِ مکروہہ ہیں،ان میں نماز پڑھنے کی کراہت ایک جیسی نہیں ہے،بلکہ ان کے مابین تفاوت ہے۔بعض اوقات میں نماز کی ممانعت دوسرے تین اوقات کی نسبت زیادہ شدید ہے۔[2] خوابوں کی تعبیر بیان کرنے کے ماہر و محدث امام محمد بن سیرین،امام المفسّرین ابن جریر طبری رحمہما اللہ اور بعض دیگر اہلِ علم نے نمازِ فجر و عصر کے بعد نماز کی ممانعت میں پائی جانے والی حکمت کے
Flag Counter