Maktaba Wahhabi

585 - 625
جیسا کہ نماز سے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوئے رہ جانے والی احادیث سے پتا چلتا ہے اور اگر کوئی شخص قصداً کوئی نماز چھوڑ دے تو ائمہ اربعہ سمیت جمہور اہلِ علم کے نزدیک گناہ گار ہوگا اور اس کے لیے ان نمازوں کی قضا کرنا ضروری ہے۔ البتہ امام داود ظاہری،علامہ ابن حزم اور امام شافعی کے بعض اصحاب رحمہم اللہ کا مذہب یہ ہے کہ ایسا شخص گناہ گار تو ہے،لیکن وہ قضا نہیں کر سکتا۔اسے چاہیے کہ توبہ و استغفار کے ذریعے اور مختلف نیک کاموں کی بدولت کفارے کی کوشش کرتا رہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ،علامہ ابن قیم رحمہ اللہ،العز بن عبد السلام،امام شوکانی رحمہ اللہ اور شیخ البانی کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔[1] الغرض اہلِ علم کے مابین یہ ایک طویل بحث ہے،جس کی تفصیلات میں جا نے سے بہتر یہی ہے کہ ائمہ اربعہ اور جمہور کے مسلک پر عمل کرتے ہوئے کسی شکل میں بھی اپنے وقت سے رہ جانے والی نماز کو قضا ہی کر لیا جائے۔[2] دیکھیں!عذر و مجبوری نہ ہونے اور محض کاہلی کے نتیجے میں موخر کرنے پر اس کی قضا بھی کی جائے اور توبہ و استغفار کرکے اس کوتاہی پر اللہ سے معافی بھی مانگی جائے،یہی احوط ہے۔ کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کسی عذر و مجبوری کی وجہ سے کسی نماز کا وقتِ ادا گزر ہی جائے،اول رہے نہ اختیار اور نہ اضطرار ہی،بلکہ نماز فوت ہو جائے تو اسے قضا کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ اگر کبھی ایک سے زیادہ نمازیں یکے بعد دیگرے رہ جائیں یا فوت ہو جائیں تو ان کی قضا کیسے کی جائے گی؟ کیا قضا نماز کے لیے اذان و اقامت بھی کہی جاسکتی ہے یا نہیں؟ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان سوالوں کا تفصیلی جواب بھی ذکر کر دیا جائے،کیوں کہ ان کا تعلق بھی اوقاتِ نماز ہی سے ہے،تاکہ یہ موضوع تشنہ تکمیل نہ رہے تو اس سلسلے میں سب سے پہلے موضوع ہے: قضا نماز کے لیے اذان۔ قضا نماز کے لیے اذان: بعض صحیح احادیث میں مذکور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے عمل مبارک سے پتا چلتا ہے کہ قضا نماز
Flag Counter