Maktaba Wahhabi

594 - 625
اس حدیث کو نقل کرکے علامہ مجد الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’منتقیٰ الأخبار‘‘ میں امام ترمذی نے جامع میں کہا ہے کہ اس کی سند میں کوئی خاص قابلِ گرفت علت نہیں،’’لیس بإسنادہ باسٌ‘‘ سوائے اس کے کہ اس کے دوسرے راوی ابو عبیدہ کا اپنے والد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع(سننا) ثابت نہیں۔امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’نیل الأوطار‘‘ میں لکھا ہے کہ اس کے تمام راوی صحیح کے راوی ہیں اور اس کی سند میں کوئی علت نہیں،سوائے ابو عبیدہ کے اپنے والد سے عدمِ سماع کے اور حفاظِ حدیث نے عدمِ سما ع کو ہی یقینی قرار دیا ہے اور ’’الفتح الرباني‘‘ میں اس کی سند کو جید قرار دیا گیا ہے۔ موطا امام مالک میں واقع ایک طریق ایسا بھی ہے،جس سے پتا چلتا ہے کہ ان کی دو نمازیں یعنی نمازِ ظہر و عصر قضا ہوئی تھیں۔[1] اس طرح کی چار روایات ہیں اور سوئے رہ جانے والی احادیث کی طرح ہی سب قضا نماز کو باجماعت ادا کرنے کی دلیل ہیں۔ ایک اِشکال اور اس کا حل: اب رہی یہ بات کہ ایسا کیوں ہے کہ بعض صحابہ نے غزوہ خندق کے موقع پر ایک نمازِ عصر قضا ہونے کا ذکر کیا ہے،بعض نے دو کا،کسی نے تین کا اور کسی نے چار کا؟ اس اشکال کے حل کی طرف ہم ’’صلاۃ الوسطیٰ‘‘ کی تعیین کے ضمن میں بھی اشارہ کریں گے کہ اہلِ علم میں سے بعض نے ترجیح کو اختیار کیا ہے اور معمری نے کہا ہے کہ صحیحین یعنی بخاری و مسلم میں جو ہے وہ راجح ہے۔یعنی ترجیح اس بات کو ہے کہ صرف ایک نمازِ عصر ہی قضا ہوئی تھی،اس بات کی تصریح کرتے ہوئے امام ابن العربی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ صحیح یہی ہے کہ مشرکین و کفارِ قریش نے جس نماز سے روکا تھا،وہ صرف ایک ہی نمازِ عصر تھی۔شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’فتح الباري‘‘ میں لکھتے ہیں کہ امام ابن العربی رحمہ اللہ کے اس قول کی تائید صحیح مسلم(اور دیگر کتبِ حدیث) میں مروی حضرت علی رضی اللہ عنہ والی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے،جس میں ہے: ﴿شَغَلُوْنَا عَنِ الصَّلَاۃِ الْوُسْطَیٰ صَلَاۃِ الْعَصْرِ[2] ’’کفار نے ہمیں نمازِ وسطیٰ یعنی نمازِ عصر سے روکے رکھا۔‘‘
Flag Counter