Maktaba Wahhabi

604 - 625
﴿لَا صَلَاۃَ لِمَنْ عََلَیْہِ الصَّلَاۃُ[1] ’’اس کی کوئی نماز نہیں،جس پر کوئی پہلی نماز واجب الاداء ہو۔‘‘ جب کہ علامہ عینی حنفی نے اس روایت کے بارے میں کہا ہے کہ ابوبکر کے بقول یہ روایت باطل ہے اور بعض نے اس کی تاویل یہ کی ہے کہ جس پر کوئی فرض نماز باقی ہو،اس کی کوئی نفلی نماز نہیں ہوتی۔علامہ ابن الجوزی نے کہا ہے کہ اس روایت کو ہم لوگوں کی زبان سے سنتے تو ہیں،لیکن مجھے اس کی کوئی اصل معلوم نہیں ہوسکی۔یعنی یہ روایت بے اصل اور من گھڑت ہے۔[2] اس سے معلوم ہوا کہ یہ روایت نہ صرف ناقابلِ استدلال ہے،بلکہ بے اصل اور جعلی ہے۔ خلاصہ کلام: قضا نمازوں اور ان میں ترتیب سے متعلق گفتگو کا لبِ لباب اور خلاصہ یہ ہے کہ عذر و مجبوری کی وجہ سے جو نمازیں قضا ہو جائیں،ان کو باقاعدہ اذان و اقامت اور جماعت کے ساتھ ادا کیا جائے اور ایک سے زیادہ قضا ہونے کی صورت میں انھیں ترتیب ہی سے پڑھنا بہتر ہے۔حتیٰ کہ بعض اہلِ علم نے اسے واجب کہا ہے۔بعض دیگر نے عدمِ وجوب کی رائے اختیار کی ہے اور اکثر محققین نے اسے ظاہر قرار دیا ہے۔اگر کوئی مسجد میں پہنچے اور وہاں جماعت کھڑی ہو تو اسے چاہیے کہ پہلے وہ جماعت سے مل کر وہ حاضر نماز پڑھ لے اور بعد میں قضا نمازوں کو ترتیب وار پڑھ لے اور اس ادا شدہ نماز کو دہرانے کی بھی ضرورت نہیں،کیوں کہ دہرانے پر دلالت کرنے والی روایات ناقابلِ حجت ہیں۔ وتراور سنتوں کی قضا: قضا نمازوں کے سلسلے میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کسی نماز کے قضا ہو جانے کی صورت میں کیا اس نماز کے صرف فرض ہی پڑھے جائیں گے یا اس کی سننِ راتبہ یا موکدہ سنتیں بھی پڑھنی چاہییں؟ تو اس سلسلے میں ’’فتح الباري‘‘(2/ 680) میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اور شیخ احمد عبدالرحمن بن البناء نے ’’الفتح الرباني‘‘(2/ 312) میں فجر کی نماز قضا ہو جانے والے واقعہ پر مشتمل حدیث کی شرح کے ضمن میں لکھا ہے کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ قضا نماز کی موکدہ سنتیں بھی
Flag Counter