Maktaba Wahhabi

612 - 625
حضرت علی اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما اور فقہاے کوفہ جواز کے قائل تھے اور بعض نے اس میں جگانے والے کی موجودگی شرط عائد کی ہے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ مروی ہے اور امام طحاوی رحمہ اللہ سے بھی۔امام ابن العربی رحمہما اللہ نے کہا ہے: ’’کوئی جگانے والا موجود ہو یا خود سے جاگ جانے کی عادت ہو تو پھر سونا جائز ہے۔صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال کی تفصیل آپ کے سامنے ہے۔اکثریت کا مسلک کراہت کا ہے اور زیادہ احتیاط پر بھی یہی مبنی ہے۔‘‘[1] اب آئیے اس حدیثِ ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کے آخری حصے میں مذکور مسئلے کی طرف۔ عشا کے بعد باتیں کرنے کی کراہت اور استثنائی صورتیں: نمازِ عشا کے بعد باتیں کرنے کے بارے میں بھی اہلِ علم کے دو گروہ ہیں۔بعض علما کاکہنا ہے کہ نمازِ عشا کے بعد باتیں کرنا مکروہ ہے اور ان کا استدلال ایک تو اسی حدیث سے ہے،جو حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور اسی بات کی دلیل وہ حدیث بھی ہے،جس کی طرف امام ترمذی رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے،جو سنن ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جس میں وہ فرماتے ہیں: ﴿جَدَبَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم السَّمَرَ بَعْدَ الْعِشَآئِ[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نمازِ عشا کے بعد باتیں کرنے سے منع فرمایا۔‘‘ اسی مفہوم کی دیگر احادیث کے پیشِ نظر نمازِ عشا کے بعد باتیں کرنے کو مکروہ قرار دیا گیا ہے،جب کہ بعض علما نے بھلائی کی باتوں کو جائز قرار دیا ہے اور اس کے دلائل بھی موجود ہیں،حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ والی حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے امام نووی رحمہ اللہ نے ’’المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج‘‘ میں لکھا ہے: ’’نمازِ عشا کے بعد باتیں کرنے کی کراہت کا سبب یہ ہے کہ وہ رات کو طویل وقت تک جگائے رکھیں گی،جس کے نتیجے میں وہ شخص تہجد یا ذکر و تلاوت سے رہ جائے گا،یا نمازِ فجر
Flag Counter