Maktaba Wahhabi

626 - 625
فتح القدیر میں امام شوکانی رحمہ اللہ کے بقول(حضرت ابن عباس،ابن عمر اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ) حضرت علی اور ابو امامہ رضی اللہ عنہما سے بھی موقوف آثار ہی ملتے ہیں۔[1] امام ابن جریر رحمہ اللہ نے تابعین میں سے امام عطاء،عکرمہ،عبداللہ بن شداد اور ربیع رحمہم اللہ سے ایک ایک اور حضرت مجاہد رحمہ اللہ سے دو(2) قول نقل کیے ہیں،جن میں اِن سب نے نمازِ فجر کو نمازِ وسطیٰ کہا ہے۔[2] جب کہ ان آثارِ صحابہ و تابعین کے دلیل کا کام دینے یا دلیل نہ بن سکنے کے سلسلے میں امام شوکانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم ان کے اپنے اقوال پر مبنی ہیں اور ان میں سے کوئی ایک اثر بھی ایسا نہیں ہے،جس میں اس بات کی نسبت نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہو۔ایسے اقوال دلیل و حجت نہیں بن سکتے،خصوصاً جب کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات ثابت ہو،جس پر تواتر کا دعویٰ کرنا بھی ممکن ہو۔ایسی ثابت شدہ بات کے مقابلے میں آنے والے اقوال تو قطعاً دلیل نہیں ہو سکتے اور کسی ایسے معاملے میں جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال دلیل نہیں بن سکتے تو تابعین اور تبع تابعین سے مروی اقوال بالاولیٰ دلیل نہیں ہوں گے۔[3] اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نمازِ فجر کو نمازِ وسطیٰ کہنے والوں کے دلائل میں کوئی جان نہیں ہے۔ نمازِ ظہر کہنے والوں کے دلائل اور ان کا جائزہ: اب آئیے دیکھیں کہ نمازِ ظہر کو وسطیٰ کہنے والوں کے پاس کیا دلائل ہیں اور ان کی حجت کی کیا حیثیت ہے؟ چنانچہ اس کے دلائل ذکر کرتے ہوئے امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے تیر ہ روایات ذکر کی ہیں،جن میں سے آٹھ تو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے موقوفاً مروی ہیں اور انہی سے ایک روایت ایسی بھی مروی ہے،جسے سندکے اعتبار سے توضعیف قرار دیا گیا ہے،لیکن اس کے مرفوع ہونے کو امام شوکانی رحمہ اللہ نے غیر صحیح اور علامہ احمد شاکر نے وہم قرار دیا ہے۔یعنی وہ الفاظ جو نمازِ وسطیٰ کی تعیین سے تعلق رکھتے ہیں،نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں،بلکہ وہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہی کے ہیں۔[4]
Flag Counter