Maktaba Wahhabi

152 - 699
کے بعد کہا ہے: ’’وَھُوَ قَوْلُ أَبِيْ حَنِیْفَۃِ وَأَبِيْ یُوْسُفَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَھُمُ اللّٰہُ تَعَالیٰ‘‘ ’’امام ابو حنیفہ،ابو یوسف اور محمد رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے۔‘‘ البتہ بعض علما نے ان احادیث میں یہ تطبیق دی ہے کہ جن احادیث میں اذانِ اول کے الفاظ ہیں،ان سے مراد نمازِ فجر والی اذان ہی ہے اور اس پر ’’اول‘‘ کا اطلاق اقامت کے مقابلے میں کیا گیا ہے،کیوںکہ اقامت کو بھی حدیث میں اذان کہا گیا ہے۔یعنی اذانِ اول جو نمازِ فجر کے لیے ہوتی ہے،اس میں یہ الفاظ کہے جائیں گے اور اذان ثانی(اقامت جو نمازِ باجماعت کے لیے ہوتی ہے)اس میں یہ الفاظ نہیں کہے جائیں گے۔ آدابِ اذان اور اوصافِ مؤذن: اب رہی اذان کہنے کے آداب اور مؤذن کے اوصاف کی بات۔اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ موذن کے لیے وہ صفات یا اوصاف ضروری نہیں،جو پیش امام کے لیے لازمی ہیں،مثلاً افضلیت اور عمر وغیرہ،کیونکہ صحیح بخاری و مسلم میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: {إِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ فَلْیُؤَذِّنْ أَحَدُکُمْ وَلْیَؤُمَّکُمْ أَکْبَرُکُمْ}[1] ’’جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے ایک اذان کہے اور سب سے بڑا امامت کرائے۔‘‘ احادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جن اوصاف کا پتا چلتا ہے اور اذان کہنے کے جو آداب سامنے آتے ہیں۔ان کی قدرے تفصیل کچھ یوں ہے: 1۔ مؤذن باوضو ہو کر اذان دے،کیونکہ اذان کے کلمات بھی ذکر ہیں اور ذکر با وضو ہی اولیٰ ہے۔البتہ اس سلسلے میں سنن ترمذی و بیہقی میں جو حدیث ہے: {لَا یُؤَذِّنُ إِلَّا مُتَوَضِّیٌٔ}[2] ’’با وضو انسان ہی اذان دے۔‘‘ وہ تو محدّثینِ کرام کے نزدیک ضعیف ہے۔[3] یہی وجہ ہے کہ اہلِ علم میں دونوں طرح کی آرا
Flag Counter