Maktaba Wahhabi

201 - 699
حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ آئے،پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے(ان دونوں کو بھی اجازت و بشارت دی گئی اور یہ بھی اسی طرح بیٹھتے گئے)بالآخر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو انھیں بھی اندر آنے کی اجازت اور جنت کی بشارت دی۔ {فَلَمَّا رَآہُ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم غَطّیٰ فَخِذَہُ} ’’جب انھیں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو ران کو ڈھانپ لیا۔‘‘ اس کا سبب پوچھنے پر وہی جواب دیا کہ میں بھی اس سے حیا کرتا ہوں،جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔[1] آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم: رانوں کا ستر نہ ماننے والوں کا استدلال بعض دیگر احادیث اور آثار سے بھی ہے،جن میں سے پہلے اثر میں ابو العالیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن صامت نے میری ران پر ہاتھ مارا اور کہا: ’’میں نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا تو انھوں نے میری ران پر ایسے ہی ہاتھ مار کر کہا کہ جس طرح تم نے مجھ سے پوچھا ہے،ایسے ہی میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری ران پر اس طرح ہاتھ مارا تھا،جیسے میں نے تمھاری ران پر ہاتھ مارا ہے اور فرمایا تھا: {صَلِّ الصَّلَاۃَ لِوَقْتِھَا}[2] ’’نماز کو اس کے وقت پر ادا کرو۔‘‘ یہ حدیث تو طویل ہے،لیکن محل شاہد نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی ران پر،ان کا عبداﷲ بن صامت کی ران پر اور ان کا ابو العالیہ کی ران پر ہاتھ مارنا ہے۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے اسے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اگر ران مقامِ ستر ہوتی تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی ران کو اپنے دستِ مبارک سے ہرگز نہ چھوتے اور نہ عبداﷲ بن صامت اور ابو العالیہ ایسا کرتے اور کسی مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ کسی انسان کی شرمگاہ قبل و دُبر پر کپڑے کے اوپر سے ہاتھ مارے۔
Flag Counter