Maktaba Wahhabi

202 - 699
علامہ موصوف نے اس اثر اور حدیث کے مجموعے میں ران پر کپڑے کے اوپر سے ہاتھ لگانے کو شرمگاہ پر ہاتھ لگانے سے ملا دیا ہے۔حالانکہ نظائر کے اختلاف کی وجہ سے رانوں کو سترِ خفیف قرار دیا گیا ہے،جو سترِ مغلّظ یعنی شرمگاہ سے مختلف حیثیت رکھتی ہیں،لیکن رانوں کو کپڑے کے اوپر سے چھونا شرمگاہ کو چھونے سے قطعاً کوئی مناسبت نہیں رکھتا اور نہ ہی یہ فعل ایک جیسے ہوسکتے ہیں،جنھیں علامہ ابن حزم نے ایک جیسے کرتے ہوئے استدلال کرنا چاہا ہے۔[1] آگے موصوف نے اپنی سند کے ساتھ جبیر بن حویرث کا اثر بیان کیا ہے کہ انھوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ران دیکھی جو ننگی تھی۔تیسرے اثر میں بیان کیا ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضرت قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کے پاس آئے(تو دیکھا کہ)انھوں نے اپنی دونوں رانوں سے کپڑا ہٹا رکھا تھا۔[2] یہ دوسرا مسلک امام مالک و احمد کا ایک ایک روایت میں اور اہلِ ظاہر کا بھی یہی ہے۔امام ابن جریر رحمہ اللہ کی طرف بھی یہ منسوب ہے،مگر ان کی طرف یہ نسبت صحیح نہیں۔ یہ کل دلائل ہیں جانبین کے جو ہم نے آپ کے سامنے رکھ دیے ہیں۔ جائزہ اور ترجیح: ان ہر دو طرح کے دلائل کو پیشِ نظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ صحیح احادیث دونوں طرف ہی موجود ہیں،ایسے ہی ہر دو طرح کے دلائل کے مابین جمع و تطبیق یا موافقت پیدا کرنے اور کسی ایک پہلو کو ترجیح کا مرحلہ آتا ہے اور اس مسئلے میں یہ ممکن بھی ہے،چنانچہ امام قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے صاحبِ فتح الباری لکھتے ہیں: ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ والی حدیث اور اسی طرح کے مفہوم کی دوسری احادیث(جن سے مقامِ ستر نہ ماننے والوں نے استدلال کیا ہے)وہ مخصوص اوقات میں مخصوص واقعات و قضیے ہیں اور ان میں اس بات کا احتمال موجود ہے کہ وہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہوں یا اصل اباحت کی بقا کا پتا دیتے ہوں،جبکہ یہ احتمالات حضرت جرہد رضی اللہ عنہ والی حدیث اور اسی
Flag Counter