Maktaba Wahhabi

205 - 699
ذاتی غرض یا رغبت و دلچسپی سے دور رہتے ہوئے دونوں طرح کے دلائل والے مسئلے میں سے کسی ایک پہلو کو اختیار کرنے میں مدد دینے والے ہو سکتے ہیں۔وہ اصولی قاعدے دو ہیں: پہلا قاعدہ: ممانعت پر دلالت کرنے والے پہلو کو اختیار کرنا جائز کرنے والے پہلو پر مقدّم ہوتا ہے۔ دوسرا قاعدہ: قولی احادیث فعلی احادیث پر مقدّم ہوتی ہیں،کیونکہ فعلی احادیث میں ان کے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہونے وغیرہ کے احتمالات پائے جاتے ہیں۔ ان دو قاعدوں کے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہے کہ رانوں کو ستر قرار نہ دینے والوں کے دلائل پر مبنی واقعات میں سے بعض تو ایسے بھی ہیں کہ جن کے وقوع میں قصد و ارادہ کا دخل ظاہر نہیں ہوتا،جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ والی حدیث اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ والا اثر ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ یہ مخصوص واقعات ہیں،جو اس مسئلے کے عام ہونے کا پتا نہیں دیتے،جبکہ اس کے برعکس جو قولی احادیث ہیں(جن سے پتا چلتا ہے کہ رانیں مقامِ ستر ہیں)وہ ایک عام حکمِ شریعت کا درجہ رکھتی ہیں اور سلف سے لے کر خلف تک سب کا ان قولی احادیث پر ہی عمل رہا ہے،کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ سلف صالحین یا متاخرین میں سے کوئی اپنی رانوں کو ننگا کیے چلتا پھرتا یا اٹھتا بیٹھتا ہو،سوائے موجودہ دور کے کفار میں سے بعض لوگوں کے یا ان کفار کی اندھی تقلید کرنے والے کچھ مسلمانوں کے،جو گھٹنوں سے بھی اونچے پائنچوں کے نیکر پہنے پھرتے ہیں۔ ان امور کی بنا پر اور قولی دلائل کے راجح ہونے کے پیشِ نظر اس رائے میں ذرہ تردّد نہیں کرنا چاہیے کہ رانیں مقامِ ستر ہیں،خصوصاً جبکہ اکثر علما نے یہی رائے اختیار کی ہے۔امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’نیل الأوطار‘‘ اور ’’السیل الجرار‘‘ میں اسی مسلک کو جزماً صحیح و حق کہا ہے،ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ رانوں کا مقامِ ستر ہونا،شرمگاہ کے مقامِ ستر ہونے سے خفیف تر ہے۔’’تہذیب السنن‘‘ میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کا میلان بھی اسی طرف ہے،اس طرح حدیثِ ابو ذر رضی اللہ عنہ میں جو بظاہر کپڑے کے اوپر سے ران کو چھونا واقع ہوا ہے،وہ شرم گاہ کو چھونے جیسا ہرگز نہیں ہے۔[1]
Flag Counter