Maktaba Wahhabi

219 - 699
’’إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ فَأَتَجَمَّلُ لِرَبِّيْ‘‘ ’’بے شک میرا پروردگار صاحبِ جمال ہے اور وہ حسن و جمال کو پسند فرماتا ہے،لہٰذا میں اپنے پروردگار کے لیے جمال و زینت اختیار کرتا ہوں۔‘‘ ساتھ ہی فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ کا حکم بھی ہے: ﴿خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ﴾[الأعراف:31] ’’ہر نماز کے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔‘‘[1] نماز میں پگڑی یا ٹوپی سے سر کو ڈھانپنا چونکہ نماز کے لیے مردوں کی نسبت ضروری لباس کا ذکر چل رہا ہے اور مردوں کے مقامِ ستر کی تعیین بھی بالتفصیل کی جا چکی ہے،جن میں تمام تر فقہی اختلافات کو تسلیم کر لینے کے باوجود بھی صرف اتنا ہی ہے کہ نمازی گھٹنوں اور ناف کے درمیانی حصے کو کپڑے سے ڈھانپ لے اور کپڑے کی قلت و مجبوری نہ ہو تو کندھوں کو بھی ڈھانپ لے اور قلت و مجبوری میں کندھوں کو ڈھانپنا بھی شرط،واجب یا ضروری نہیں ہے۔ستر پوشی اور نماز کے لیے لباس کے ضمن میں کسی صحیح و صریح اور خاص حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے،ائمہ اربعہ رحمہم اللہ میں سے کسی امام سے اور فقہا و محدّثین رحمہم اللہ میں سے کسی فقیہ یا محدّث سے یہ ثابت نہیں کہ مَردوں کو نماز میں سر کا ڈھانپنا بھی شرط یا واجب یا ضروری قرار دیا گیا ہو۔ مگر ہمارے یہاں اس سلسلے میں بڑے تشدد سے کام لیا جاتا ہے۔اگر کوئی ننگے سر نماز پڑھ لے تو اسے بڑی خشمگیں آنکھوں سے تاڑا جاتا ہے،جیسے اس سے کوئی بہت ہی گھناؤنا جرم سرزد ہوگیا ہو اور اس شخص کو بڑا بُرا سمجھا جاتا ہے،جیسے اس نے کسی گناہِ کبیرہ کا علانیہ ارتکاب کر لیا ہو۔اور کئی ’’مہربان‘‘ از راہِ شفقت کوئی نہ کوئی بوسیدہ سی کھجور کے پتوں کی بنی ہوئی یا پھر کوئی سوتی مگر تیل اور میل سے اٹی ہوئی ٹوپی اٹھا کر اس کے سر پر رکھ دیتے ہیں۔بعض حضرات شدتِ احساس میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ پاس کوئی رومال یا ٹوپی نہ ہو تو مسجد سے کسی بھی چیز کے میسر نہ آنے پر قمیص کے بٹن کھول لیتے ہیں اور کالر اٹھا کر اسے گلے کے بجائے سر پر رکھ لیتے ہیں،تاکہ سر ننگا نہ رہے۔حالانکہ
Flag Counter