Maktaba Wahhabi

226 - 699
مان بھی لی جائے تو پھر ضروری ہے کہ ایسی دستار و عمامہ یا ٹوپی و پگڑی نماز کے لیے استعمال کی جائے،جسے دورِ حاضر میں واقعی زینت و عزت اور رعب و وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے اور صرف نماز کے لیے ہی نہیں،عام حالات میں اِدھر اُدھر نکلنے یا کسی کے ہاں مہمان جانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہو۔ محض سر کو ڈھکنا اور وہ بھی ایسی ٹوپیوں سے جنھیں اگر آپ سے کہا جائے کہ سر پر پہن کر بازار کا چکر لگا لو یا کسی عزیز رشتے دار کے یہاں سے ہو آؤ تو اسے پہن کر جانے میں آپ شرم محسوس کریں،تو پھر کیا اﷲ کی ذات اور اس کے گھر ہی(نعوذ باﷲ)ایسے غیر اہم مقامات ہیں،جس کے یہاں آپ ایسی مانگے کی ٹوپیاں اور وہ بھی ٹوٹی پھوٹی اور میلی کچیلی ٹوپیاں پہن کر کھڑے ہوجاتے ہیں؟! اِدھر نماز سے فارغ ہوئے اور ٹوپی اتاری اور صفوں کی آخری دیوار کے پاس پھینک دی،یا پھر اسے تہہ کر کے جیب میں محبوس کر دیا۔یاد رکھیں کہ دستار و عمامہ مسلمان کی شان اور اس کا امتیاز ہے،جو نماز کی نسبت نماز سے باہر عام حالات میں زیادہ ضروری ہے،تاکہ مسلمان کی پہچان ہوسکے اور وہ دستار و عمامہ جو امتیاز کے طور پر عام حالات میں پہنا جائے،وہی نماز میں بھی پہنا جانا چاہیے۔ ان ٹوپیوں کو رواج دینے کے نتیجے ہی میں اﷲ کے گھروں کو اس طرح بھی ’’غیر اہم‘‘ بنایا جاتا ہے کہ انھیں اپنی ’’سخاوت‘‘ کا مرکز بناتے ہوئے ٹوپیاں خرید کر اس میں رکھی جاتی ہیں،جو تھوڑے ہی عرصے میں تیل اور میل سے اَٹ جاتی ہیں اور جا بجا سے پھٹ جاتی ہیں،مگر مسجد سے ہٹائے جانے کا تصور بھی نہیں کیا جاتا،اسی طرح مسجد کو بلا وجہ ایک خیراتی ادارے کا سا رنگ دے دیا جاتا ہے،جو بہر حال اﷲ کے گھروں کے شایانِ شان ہرگز نہیں ہے،بلکہ یہ ان کے مقام اور تقدس کو مجروح کرنے کا ذریعہ ہے۔ ننگے سر نماز کا جواز فضیلت والی روایات کی استنادی حیثیت اور ان کے نتائج و اثرات کے بعد اب آئیے ننگے سر نماز کا حکم بھی معلوم کریں کہ آیا اس طرح نماز ہوجاتی ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں برِصغیر میں مسلمانوں کے دو بڑے مکتبِ فکر ہیں،ایک احناف اور دوسرے اہلِ حدیث احناف کی شاخیں ہیں۔ان میں ایک دیوبندی احناف ہیں اور دوسرے ہیں بریلوی احناف۔اس طرح ہمارے سامنے تین بڑے مکتبِ فکر آتے ہیں۔لہٰذا آئیے! ان تینوں کے نزدیک ننگے سر نماز کی
Flag Counter