Maktaba Wahhabi

230 - 699
چوتھی بات: مفتی صاحب موصوف نے فتوے میں احسن الفتاویٰ کے حوالے سے ’’شرح التنویر‘‘ کی وہ عبارت بھی نقل کی ہے جو ’’مکروہات الصلاۃ‘‘ کے ضمن میں ہے،جس میں کہا گیا ہے: ’’وَصَلَاتُہٗ حَاسِراً أَیْ کَاشِفاً رَأْسَہٗ لِلتَّکَاسُلِ،وَلَا بَأْسَ بِہٖ لِلتَّذَلُّلِ‘‘ ’’سستی کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے اور انکساری کی نیت سے ہو تو پھر کوئی حرج نہیں۔‘‘ اس اقتباس کو نقل کر کے اس کے آخری الفاظ ’’وَلَا بَأْسَ بِہٖ لِلتَّذَلُّلِ‘‘ سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اس عبارت سے معلوم ہوا کہ بلا تکاسل(یعنی سستی)برہنہ(ننگے)سر نماز پڑھنے میں بھی کوئی کراہت نہیں ہے۔‘‘ یہ ایک دیوبندی عالم اور معروف مفتی کا فتویٰ ہے،جس میں انھوں نے عقلی و نقلی دلائل کے ساتھ ننگے سر نماز کے جواز اور مساجد میں ان ٹوپیوں کے رکھنے کے عدمِ جواز کی صراحت کی ہے۔[1] اس فتوے پر ایک دوسرے دیوبندی عالم مولانا سرفراز خاں صفدر گکھڑوی کا تعاقب بھی روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور(2 نومبر 1986ء)کی اشاعت میں شائع ہوا،جس میں انھوں نے اپنے تمام پیش رو ائمہ و علما کے فتاویٰ و تصریحات کے برعکس عوام الناس کے مرو جہ رویے کے پیش نظر اور شائد ان کی تائید حاصل کرنے کے لیے ٹوپی کو لازم قرار دے دیا،مگر کوئی واضح دلیل نہیں دے پائے اور کسی بلا دلیل دعوے کے باطل ہونے کا اصول معروف ہے۔ اہلحدیث موقف: اب تیسرا مکتبِ فکر اہلحدیث حضرات کا ہے،جن کے نزدیک ننگے سر نماز تو ہوجاتی ہے،خصوصاً جب یہ ضرورتاً بھی ہو،لیکن محض سستی اور بے پروائی کی بنا پر ننگے سر نماز پڑھنے کو فیشن ہی بنا لینا اسے وہ بھی پسند نہیں کرتے،بلکہ تمام احناف کی طرح اس صورت کو وہ بھی غیر مستحسن یا مکروہ و ناپسندیدہ قرار دیتے ہیں۔چنانچہ
Flag Counter