Maktaba Wahhabi

231 - 699
’’اہلحدیث‘‘ سوہدرہ: اس سلسلے میں ایک مختصر فتویٰ مجلہ ’’اہلحدیث‘‘ سوہدرہ(جو گوجرانوالہ پاکستان کے ایک قریبی چھوٹے سے مگر معروف علمی گاؤں سوہدرہ سے شائع ہوتا تھا)کی جلد(15)شمارہ(22)میں شائع ہوا تھا،جس میں مفتیِ مجلہ نے لکھا تھا: ’’ننگے سر نماز ہوجاتی ہے،صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے جواز ملتا ہے،مگر بطورِ فیشن بے پروائی اور تعصّب کی بنا پر مستقل اور ہمیشہ کے لیے یہ عادت بنا لینا،جیسا کہ آج کل دھڑلے سے کیا جا رہا ہے،ہمارے نزدیک صحیح نہیں،کیوںکہ نبی علیہ السلام نے خود یہ عمل نہیں کیا۔‘‘[1] مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ: اسی سلسلے میں اہل حدیث کے ممتاز عالمِ دین مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ سے جب پوچھا گیا کہ بدن پر کپڑے ہوتے ہوئے سر پر سے ٹوپی یا پگڑی اتار کر رکھ دینی اور کوئی عذر بھی نہ ہو اور ہمیشہ اسی طرح ہی نماز پڑھنا،اگرچہ فرض نماز باجماعت مسجد میں ہو،اس کے لیے شرعاً کیا حکم ہے؟ کیا اس طرح نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثبوت ملتا ہے؟ اور ننگے سر نماز پڑھنی افضل ہے یا سر ڈھانک کر؟ اور ساتھ ہی دلائل کا مطالبہ کیا گیا تو موصوف رحمہ اللہ نے 29؍ جمادی الاولیٰ 1379ھ کو جو فتویٰ صادر فرمایا،جسے انھوں نے اپنے والد بزرگوار کی طرف منسوب کیا ہے،وہ لاہور سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘(جلد 11-شمارہ:18)میں نشر ہوا۔وہ فتویٰ قدرے طویل ہے،اس لیے اس کا حتی الامکان مفید خلاصہ پیش کیے دیتے ہیں،موصوف لکھتے ہیں: ’’سر اعضاے ستر میں سے نہیں،لیکن نماز میں سر ننگا رکھنے کے مسئلے کو اس لحاظ سے نہیں بلکہ آدابِ نماز کے لحاظ سے دیکھنا چاہیے۔‘‘ پھر آگے کندھوں کو ڈھانکنے پر دلالت کرنی والی صحیح بخاری اور موطا امام مالک کی روایات اور موطا کی شرح زرقانی(و تمہید)ابن عبدالبر،صحیح بخاری کی شرح فتح الباری،ایسے ہی شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب ’’الاختیارات‘‘ اور امام ابن قدامہ کی ’’المغنی‘‘ سے تصریحات و اقتباسات نقل کر کے ثابت کیا ہے کہ کندھے بھی اگرچہ اعضاے ستر میں سے نہیں ہیں،اس کے باوجود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter