Maktaba Wahhabi

232 - 699
نے ایک کپڑا ہونے کی شکل میں ننگے کندھوں سے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے،اسی طرح سر بھی اگرچہ اعضاے ستر میں سے نہ سہی،لیکن آدابِ نماز میں سے یہ بھی ایک ادب ہے کہ بلا وجہ ننگے سر نماز نہ پڑھی جائے اور اسے زینت کا تقاضا بھی قرار دیا ہے۔ آگے لکھا ہے: ’’ابتداے عہدِ اسلام کو چھوڑ کر جبکہ کپڑوں کی قلت تھی،اس کے بعد اس عاجز کی نظر سے کوئی ایسی روایت نہیں گزری،جس میں صراحتاً یہ مذکور ہو کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یا صحابہ نے مسجد اور وہ بھی نماز باجماعت میں ننگے سر نماز پڑھی ہو،چہ جائیکہ معمول ہی بنا لیا جائے۔اس لیے اس رسم کو جو پھیل رہی ہے،بند کرنا چاہیے،اگر فیشن کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھی جائے تو نماز مکروہ ہوگی،اگر تعبّد اور خضوع اور خشوع و عاجزی کے خیال سے(ننگے سر)پڑھی جائے تو یہ نصاریٰ کے ساتھ تشبُّہ ہوگا۔اسلام میں ننگے سر رہنا سوائے احرام کے،تعبّد یا خشوع و خضوع کی علامت نہیں اور اگر کسل اور سستی کی وجہ سے ہے تو یہ منافقین کی ایک خصلت سے متشابہ ہوگا۔‘‘ ﴿وَ لَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَ ھُمْ کُسَالٰی﴾[التوبۃ:54] ’’نماز کو آتے ہیں تو سست اور کاہل ہو کر۔‘‘ غرض ہر لحاظ سے یہ ناپسندیدہ عمل ہے۔[1] گویا موصوف کے نزدیک اگرچہ سر اعضاے ستر میں سے نہیں کہ اس کا ڈھانپنا واجب ہو،البتہ آدابِ نماز کا تقاضا یہ ہے کہ اسے ڈھانپا جائے اور ننگے سر نماز کو عادت بنا لینا پسندیدہ نہیں۔ موصوف کا فتویٰ تو پورا ہی قابلِ مطالعہ تھا،مگر ہم نے خلاصے پر ہی کفایت کی ہے،شائقین اسے ’’الاعتصام‘‘ کے مذکورہ شمارے میں یا پھر فتاویٰ علماے حدیث(4/290-291)میں دیکھ سکتے ہیں۔ شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ: ننگے سر نماز کے سلسلے میں ہم نے اہلحدیث موقف کا تذکرہ شروع کیا ہے،جس کے ضمن میں ہم نے دو فتوے بھی ذکر کیے ہیں،جبکہ یہی استفتا ایک معروف اہل حدیث عالم شیخ الحدیث مولانا
Flag Counter