Maktaba Wahhabi

235 - 699
روایات و آثار کو نقل کرتے ہوئے انھیں مویدِ تزیّن و تجمّل قرار دیا ہے۔عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں حافظ عینی نے مختلف مذاہب کے تذکرہ میں جو تفصیل بیان کی ہے،اس کا خلاصہ موصوف نے یہ ذکر کیا ہے: ’’نماز ایک کپڑے میں درست ہے،لیکن جب وسعت ہو اور کپڑے میسر ہوں تو پھر صرف ایک پر اقتصار و اکتفا مستحسن نہیں۔‘‘ ایسے ہی مغنی ابن قدامہ سے بعض آثار و اقوال نقل کرنے کے بعد موصوف فرماتے ہیں: ’’ان تمام گزارشات سے مقصد یہ ہے کہ سر ننگا رکھنے کی عادت اور بلاوجہ ایسا کرنا اچھا فعل نہیں،یہ فعل فیشن کے طور پر روز بروز بڑھ رہا ہے اور یہ بھی نامناسب ہے۔‘‘ آگے چل کر اپنے اس جواب یا فتوے کے آخر میں مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ویسے یہ مسئلہ کتابوں سے زیادہ عقل و فراست سے متعلق ہے،اگر اس جنسِ لطیف سے طبیعت محروم نہ ہو تو ننگے سر نماز ویسے ہی مکروہ معلوم ہوتی ہے،ضرورت اور اضطرار کا باب اس سے الگ ہے۔‘‘[1] اس فتوے میں موصوف نے ایک اثر کی بات بھی کی ہے،جس سے ننگے سر نماز کے جواز پر استدلال کیا جا سکتا ہے،جسے ہم بعد میں ذکر کریں گے۔ان شاء اﷲ یہ تو اس تفصیلی فتوے کا اختصار ہے،جسے پوری تفصیل مطلوب ہو،وہ ’’الاعتصام‘‘ کا مذکورہ شمارہ یا مولانا علی محمد سعیدی رحمہ اللہ کے مرتب کردہ ’’فتاویٰ علماے حدیث‘‘(4/286 تا 289)دیکھ لے۔ خلاصۂ کلام: اہلِ حدیث علما کے تین فتوے ہم نے آپ کے سامنے رکھ دیے ہیں،جن میں سے بعض میں احناف کی طرح ہی بلا وجہ ننگے سر نماز پڑھنے کو مکروہ و ناپسندیدہ قرار دیا ہے اور فیشن کے طور پر ایسے کرنے والوں کو اور بھی بُرا سمجھا ہے،ہاں بوقتِ ضرورت ایسا کر لینے کے جواز و اباحت سے انھیں بھی انکار نہیں ہے،بلکہ صحیح بات پوچھیں تو مولانا سید محمد داود غزنوی اور شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے دونوں فتووں پر بعض ملاحظات و مؤاخذات ممکن ہیں،لیکن ہم اس سے قطع نظر کرتے ہوئے ان
Flag Counter