Maktaba Wahhabi

236 - 699
کے مفصل فتوؤں کے اس نچوڑ سے پوری طرح اتفاق کرتے ہیں،جو دوسرے لفظوں میں مجلہ اہلحدیث سوہدرہ کا مختصر فتویٰ بن جاتا ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ ننگے سر نماز ہوجاتی ہے،لیکن بطورِ فیشن و بے پروائی اور تعصّب کی بنا پر اسے مستقل اور ابد الآباد تک کے لیے عادت بنا لینا صحیح نہیں ہے۔ ننگے سر نماز کے جواز و عدمِ جواز کے سلسلے میں بریلوی،دیوبندی اور پھر اہل حدیث علما کی تصریحات و فتاویٰ ذکر کیے جا چکے ہیں،جن کا تعلق برصغیر پاک و ہند سے ہے،اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں عالمِ عرب کے دو ممتاز علما کے خیالات بھی پیش کر دیے جائیں۔ فقہ السنۃ سید سابق: نہ صرف عرب ممالک بلکہ عالمِ اسلام میں جانی پہچانی کتاب ’’فقہ السنۃ‘‘ کے مولف سید سابق رحمہ اللہ نے اپنی اس شہرۂ آفاق کتاب میں ’’کَشْفُ الرَّأْسِ فِي الصَّلَاۃِ‘‘ کے تحت ننگے سر نماز کا حکم بیان کیا ہے،جس کے ضمن میں لکھا ہے کہ ابن عساکر نے(تاریخ دمشق میں)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی ہے: {إِنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ رُبَمَا نَزَعَ قَلَنْسُوَتَہٗ فَجَعلَھَا سُتْرَۃً بَیْنَ یَدَیْہِ} ’’بعض دفعہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سرِ اقدس سے ٹوپی اتار لیتے اور اسے اپنے سامنے بطورِ سترہ رکھ لیتے تھے۔‘‘[1] پھر احناف سے نقل کیا ہے کہ ان کے نزدیک آدمی کے ننگے سر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر یہ فعل خشوع کے لیے ہو تو یہ ان کے نزدیک مستحب ہے اور نماز میں سر کو ڈھانپنے کی افضلیت پر دلالت کرنے والی کوئی دلیل وارد نہیں ہوئی۔[2] گویا سید سابق کے نزدیک ننگے سر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں،جسے انھوں نے ابن عساکر کی روایت سے ثابت کیا ہے،بلکہ خشوع کی نیت سے ہو تو مستحب ہے،جیسا کہ انھوں نے احناف سے نقل کر کے اسے برقرار رکھا ہے اور سر کو ڈھانپ کر نماز پڑھنے کی افضلیت پر دلالت کرنے والی کوئی دلیل نہیں ہے۔
Flag Counter