Maktaba Wahhabi

240 - 699
’’سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ‘‘(2538)میں اس کا سببِ ضعف بھی بیان کیا ہے۔ 2۔ اس لیے بھی اس روایت سے ننگے سر نماز کے جواز پر استدلال صحیح نہیں،کیونکہ اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے،تب بھی یہ مطلق ننگے سر نماز کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتی،بلکہ اس روایت کے ظاہری الفاظ بتا رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا اس وقت کیا جب ایسی کوئی چیز میسر نہ آئی،جسے بطورِ سترہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سامنے رکھ لیتے۔سترے کے بارے میں وارد شدہ احادیث سے پتا چلتا ہے کہ وہ سر ڈھانپنے سے بھی اہم فعل ہے۔[1] گویا علی وجہ التنزل اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس میں مذکور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل یعنی سر مبارک سے ٹوپی اتار کر اسے بطورِ سترہ اپنے سامنے رکھ کر نماز پڑھنا ایک ایسی ضرورت کے لیے تھا جو سر ڈھانپنے سے بھی زیادہ اہم ہے،لہٰذا اس سے مطلق جواز اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری دلیل: تقریباً اسی حدیث سے ملتا جلتا ایک اثر سنن ابی دواد میں مروی ہے،جس ننگے سر کے جواز پر استدلال کیا جاتا ہے،اس اثر میں عبداﷲ بن محمد زہری بیان کرتے ہیں کہ سفیان بن عیینہ نے فرمایا: ’’رَأَیْتُ شَرِیْکًا صَلّٰی بِنَا فِيْ جَنَازَۃٍ اَلْعَصْرَ فَوَضَعَ قَلَنْسُوَتَہٗ بَیْنَ یَدَیْہِ یَعْنِيْ فِيْ فَرِیْضَۃٍ‘‘[2] ’’میں نے شریک کو دیکھا کہ انھوں نے ایک جنازے کے موقع پر ہمیں عصر کی نماز پڑھائی تو اپنی ٹوپی فرض نماز پڑھاتے وقت اپنے سامنے رکھ لی۔‘‘ لیکن یہ اثر بھی کئی وجوہ کی بنا پر ناقابلِ حجت و استدلال ہے،جیسا کہ شیخ الحدیث مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: 1۔ ’’اس لیے کہ یہ نہ تو مرفوع حدیث ہے کہ اس میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عمل بیان ہوا ہو اور نہ یہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ کا اثر ہے،بلکہ یہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد والوں میں سے کسی کا اثر ہے۔ 2۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ شریک کون بزرگ ہیں،یہ شریک بن عبداﷲ بن ابی نمر تابعی ہیں یا کہ
Flag Counter