Maktaba Wahhabi

241 - 699
شریک بن عبداﷲ نخعی تبع تابعی ہیں اور ان دونوں میں سے چاہے کوئی بھی کیوں نہ ہو،دونوں میں ہی کم و بیش ضعف پایا جاتا ہے،لہٰذا یہ اثر بھی ضعیف ہوا اور پھر یہ کہ ان کا اپنا عمل ہے جو کسی طرح بھی قابلِ حجت نہیں۔ 3۔ اس لیے بھی اس اثر کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا کہ امام ابو داود نے اس اثر کو اپنی سنن کے ’’بَابٌ اَلْخَطُّ إِذَا لَمْ یَجِدْ عَصاً‘‘ کے تحت وارد کیا ہے کہ ’’جب عصا نہ ہو تو سترے کے لیے لکیر کھینچنے کا بیان۔‘‘ امام صاحب کے انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں ضرورتاً سر ننگا رکھا گیا ہے،کیونکہ جب انھیں سترے کے لیے کوئی چیز نہ ملی تو انھوں نے سترے کا کام ٹوپی سے لے لیا،ضرورت اور عذر سے سر ننگا رکھا جائے تو اس میں بحث نہیں،بلکہ بحث تو اس میں ہے کہ فیشن اور عادت کے طور پر نماز میں سر ننگا رکھنا کہاں تک درست ہے۔[1] تیسری دلیل: ایسے ہی ایک تیسری حدیث بھی ہے،جس سے نہ صرف یہ کہ ننگے سر نماز کے جواز پر استدلال کیا جا سکتا ہے،کیونکہ اس میں تو ننگے سر مساجد میں آنے کے لیے امر کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے،چنانچہ الکامل لابن عدی میں دو طریق سے اور تاریخ دمشق ابن عساکر میں ایک طریق سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے،یعنی اس کلام کو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہے،جس میں ہے: ’’اِئْتُوا الْمَسَاجِدَ حَسْراً مُعَصَّبِیْنَ فَإِنَّ الْعَمَائِمَ تِیْجَانُ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘[2] ’’مساجد میں ننگے سر آؤ اور پگڑیاں باندھ کر آؤ،بے شک پگڑیاں تو مسلمانوں کے تاج ہیں۔‘‘ تاریخ ابن عساکر میں اس کے الفاظ میں معمولی سا فرق ہے،وہاں پر ہے: ’’اِئْتُوا الْمَسَاجِدَ حَسْراً وَمُقَنِّعِیْنَ فَإِنَّ ذٰلِکَ مِنْ سِیْمَا الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ ’’مساجد میں ننگے سر آؤ یا ٹوپی پہن کر یہ(ٹوپی پہننا)مسلمانوں کی نشانی ہے۔‘‘
Flag Counter