Maktaba Wahhabi

242 - 699
اس روایت کے دونوں طرح کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ بیک وقت دو دلیلیں لی جا سکتی ہیں،ایک ننگے سر مساجد میں جانے اور نماز پڑھنے کے جواز کی اور دوسری اس کے سراسر برعکس پگڑی یا عمامہ باندھنے کی فضیلت کی۔لیکن افسوس یہ ہے کہ ان دونوں باتوں میں سے یہ روایت کسی ایک پر بھی استدلال کے لائق نہیں ہے،کیونکہ محدّثینِ کرام نے اسے سخت ضعیف بلکہ موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے،کیونکہ اس روایت کے دونوں طرق میں ایک راوی میسرہ بن عبد ربہ ہے،جو خود اس بات کا معترف ہے کہ وہ ’’وضّاع‘‘ ہے،یعنی روایتیں گھڑتا ہے،۔حافظ عراقی نے اسے متروک قرار دیا ہے۔[1] اس حدیث کے ابن عساکر والے طریق میں،جو الکامل میں بھی ہے،ایک راوی مبشر بن عبید ہے،جس کے بارے میں امام ابن عدی نے کہا ہے: ’’مُبَشِرٌ ھٰذَا بَیِّنُ الْأَمْرِ فِي الضُّعْفِ،وَعَامَّۃٌ مَّا یَرْوِیْہِ غَیْرُ مَحْفُوْظٍ‘‘ ’’یہ مبشر ضعیف ہونے میں واضح ہے اور اس کی مرویات عموماً غیر محفوظ ہیں۔‘‘ امام احمد بن حنبل اس کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’کان یضع الحدیث‘‘(وہ حدیثیں گھڑا کرتا تھا) اور ’’الضعفاء و المتروکین‘‘(3/30)میں امام ابن حبان نے کہا ہے: ’’یَرَوِيْ عَنِ الثِّقَاتِ الْمَوْضُوْعَاتِ،لَا یَحِلُّ کِتَابَۃُ حَدِیْثِہِ إِلَّا عَلَیٰ جِھَۃِ التَّعَجُّبِ‘‘[2] ’’یہ ثقہ راویوں سے من گھڑت احادیث بیان کرتا ہے،تعجب کے سوا اس کی مرویات کو لکھنا بھی جائز نہیں۔‘‘ یہ ہے اس حدیث کی حقیقت،اب بھلا ایسی حدیث سے استدلال کیسے روا ہوسکتا ہے؟ علامہ البانی: عرب کے علما سے دوسرے مشہور و معروف عالم اور محدّثِ کبیر علامہ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’تمام المنۃ‘‘ میں ننگے سر نماز پڑھنے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار فرمایا
Flag Counter