Maktaba Wahhabi

248 - 699
الادب المفرد امام بخاری رحمہ اللہ اور صحیح ابن حبان میں یہی حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے،جیسے جیسے کوئی سلام کے الفاظ میں اضافہ کرتا جاتا،ثواب اور نیکیوں کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ’’نیکیوں‘‘ کا لفظ اور تعداد دونوں وارد ہوئے ہیں اور یہ تین کلمات تو صحیحین میں ثابت ہیں،[1] جبکہ بعض اضافی کلمات کی تفصیل فتح الباری(11/3-7-36-38)میں موجود ہے۔ اندازہ فرمائیں کہ سلام کہنے کی کس قدر فضیلت و ثواب ہے؟ جس سے ہمیں کسی حد تک کبھی محض اس لیے محروم ہونا پڑتا ہے کہ مسلمان کے اسلامی شعائر کو ترک کرنے کی وجہ سے ہم اسے پہچان نہیں پاتے،وہ شعائر جن میں سے ایک عمامہ یا ٹوپی ہے۔ جہاں مسلم اور کافر ملے جلے بیٹھے ہوں: البتہ یہاں ایک مسئلہ بیان کر دینا مناسب لگتا ہے کہ اگر کہیں آپ دیکھتے ہیں کہ مسلم و کافر ملے جلے بیٹھے ہیں یا کام لگے ہوئے ہیں تو آپ کو مسلمانوں کی نیت سے ضرور سلام کہہ لینا چاہیے،کیونکہ اس کا ثبوت صحیح احادیث میں موجود ہے،چنانچہ صحیح بخاری و مسلم اور سنن ترمذی میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: {إِنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم مَرَّ عَلٰی مَجْلِسٍ فِیْہِ اَخْتِلَاطٌ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُشْرِکِیْنَ عَبَدَۃِ الْأَوْثَانِ وَالْیَھُوْدِ فَسَلَّمَ عَلَیْھِمُ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم}[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے،جس میں مسلمان اور مشرکین یعنی بتوں کے پجاری اور یہودی سب ملے جلے بیٹھے تھے تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سلام کہا۔‘‘ عمومی لفظ کے ساتھ سلام کہنا مگر نیت صرف مسلمانوں کی کرنا،اس کی صراحت تو امام نووی رحمہ اللہ نے کی ہے کیوں کہ غیر مسلم کو سلام کرنے میں ابتدا کرنا جائز نہیں،جیسا کہ حدیث ذکر کی جا چکی ہے۔امام ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر اہلِ سنت و اہلِ بدعت،عدل پسند اور ظالم یا محب اور مبغض
Flag Counter