Maktaba Wahhabi

252 - 699
اس حدیث کو امام سیوطی الجامع الصغیر میں بھی لائے ہیں اور اسے صحیح و ضعیف میں الگ الگ کرنے والے محدّث مذکور نے اسے سخت ضعیف قرار دیتے ہوئے اسے ضعیف الجامع میں درج کیا ہے۔ غرض کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ والی تحقیق کی رو سے صرف عمامہ و پگڑی باندھیں یا صرف ٹوپی پہنیں یا دونوں کو بیک وقت اوپر نیچے استعمال کریں،ہر طرح جائز ہے،ممانعت نہیں۔نماز کے لیے مردوں کے لباس کا موضوع ختم کرتے ہوئے یہ بھی کہتے جائیں کہ صحیح بخاری و مسلم کی ذکر کردہ حدیث کی رو سے جمہور اہل علم کے نزدیک نماز میں کندھوں کو ننگے رکھنے کی ممانعت نہی تنزیہی ہے،تحریمی نہیں یعنی کندھوں کا ڈھانپا ہوا ہونا بہتر ہے،فرض و واجب نہیں۔مغنی ابن قدامہ میں مذکور ہے کہ امام ابوحنیفہ،مالک اور شافعی رحمہم اللہ کا یہی مسلک ہے،لیکن امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک کندھوں کا ڈھانپنا بھی ضروری ہے،البتہ اگر کپڑا چھوٹا ہو تو شرمگاہ یعنی مقاماتِ ستر کی ستر پوشی کرے اور ننگے کندھوں سے نماز پڑھ لے۔[1] اب رہا معاملہ نماز میں مَردوں کے سر کو ڈھانپنے کا،تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ اول تو دستار یا ٹوپی و پگڑی عام حالات میں بھی استعمال کریں،کیوںکہ یہ شعارِ مسلم ہے اور جب عام حالات میں اسے ترک کر رکھا ہے تو کم از کم نماز کے وقت تو اچھی سی ٹوپی پہن لیا کریں،کیونکہ یہ انسان کے لیے زینت ہے،مگر ہمارے ممالک کی مساجد میں یا پھر ہمارے ہی لوگوں کی لائی ہوئی اور ان مساجد میں رکھی گئی ٹوپیاں ہر گز زینت نہیں ہوتیں،ان کی نسبت تو ننگے سر نماز پڑھ لینا ہی بہتر ہے،کیوںکہ ننگے سر بھی نماز ہوجاتی ہے،سر کو ڈھانپنا محض زینت و آدابِ نماز کا ایک تقاضا ہے،کوئی فرض و واجب یا سنتِ مؤکدہ بھی نہیں ہے،لہٰذا اگر کوئی ننگے سر نماز پڑھ رہا ہو تو اس کے گلے پڑنا،اس کے سر پر ٹوپی رکھنا یا اسے خشمگیں نگاہوں سے گھورنا ہر گز درست نہیں ہے،اﷲ تعالیٰ بات کو سمجھنے کی توفیق سے نوازے۔ نماز کے لیے عورت کا لباس آئیے! اب دیکھیں کہ نماز کے لیے عورت کا کون سا لباس ضروری ہے؟ اس کے لیے کن اعضاے جسم کا ڈھانپنا ضروری ہے اور کن کو ننگا رکھ سکتی ہے؟ لباس کے کیا کیا اوصاف ضروری ہیں اور
Flag Counter