Maktaba Wahhabi

270 - 699
اختلاف پایا جاتا ہے،جب کہ حد بندی کے سلسلے میں ان کے جتنے بھی اقوال ہیں،ان کی کوئی ایسی اصل نہیں جو اعتماد کے قابل ہو۔‘‘ پھر آگے اپنی طرف سے لکھتے ہیں: ’’اس روایت میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ اُسی کا قول صحیح ہے،جس کے نزدیک جسم کا کوئی بھی حصہ ظاہر ہونے پر نماز جائز نہیں۔کیا آپ دیکھتے نہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس وقت عورت کی نماز ہوگی،جب اس نے وہ قمیص پہنی ہوگی،جو اس کے پاؤں کے اوپر کے حصوں کو بھی ڈھانپ لے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کی نماز کے جائز ہونے کی شرط اس بات کو قرار دیا ہے کہ اس کے اعضاے جسم میں سے کچھ بھی ظاہر نہ ہو۔‘‘ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ یہ روایت(ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے)مختلف کتبِ حدیث میں موقوفاً اور مرفوعاً دو طرح سے مروی ہے اور ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی صحیح نہیں،لہٰذا اس سے استدلال کرنا بھی صحیح نہیں،چناںچہ امام خطابی رحمہ اللہ کے اس کلام کو تسامح ہی کہا جائے گا،جو کسی بھی محدث یا عالم کے لیے عیب نہیں،بلکہ غیر نبی و غیر معصوم ہونے کی وجہ سے بشریت کا ایک تقاضا ہے۔ بعض صحیح احادیث: البتہ قدموں کے پردے سے تعلق رکھنے والی ایک صحیح حدیث بھی ہے،جو مختلف طُرق سے سننِ اربعہ،بیہقی،دارمی،صحیح ابن حبان،موطا امام مالک اور مسند احمد و ابی یعلی میں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے،جس میں وہ عورت کی چادر کے زیریں پلو کے بارے میں سوال کرتی ہیں تو ان کے جواب میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: {یُرْخِیْنَ شِبْراً}’’وہ ایک بالشت لٹکائیں۔‘‘ انھوں نے عرض کی کہ ’’إِذَنْ یَنْکَشِفُ أَقْدَامُھُنَّ؟‘‘(تب پھر ان کے قدم ننگے ہوں گے)تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: {فَیُرْخِیْنَہٗ ذِرَاعاً لَا یَزِدْنَ عَلَیْہِ}[1]
Flag Counter