Maktaba Wahhabi

271 - 699
’’تو پھر وہ ایک ذراع پلو لٹکا لیں،اس سے زیادہ نہ کریں۔‘‘ ایک ذراع ہاشمی تقریباً چوالیس سینٹی میٹر کی ہوتی ہے،جیسا کہ شیخ زہیر الشاویش نے صحیح سنن ابی داود للألبانی کے حاشیے میں لکھا ہے۔امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’نیل الأوطار‘‘ میں لکھا ہے کہ علامہ ابن رسلان کے بقول ایک بالشت یا ذراع(ہاتھ)پلو سے مراد بظاہر یہ ہے کہ اتنا پلو مردوں کی قمیص سے لمبا ہو،نہ یہ کہ اتنا زمین پر لگ رہا ہو۔[1] علامہ ابن رسلان کی وضاحت کے مطابق ظاہر ہے کہ اگر مردوں کی قمیص کو گھٹنوں سے کچھ نیچے تک شمار کیا جائے تو ستر کے لیے کافی ہے اور اس پر ایک ہاتھ اور لمبا پلو یا کپڑا ہو تو اس عورت کے پاؤں تک ڈھک جائیں گے اور ایک بالشت میں جو پاؤں کے ننگا رہ جانے کا خدشہ ہوسکتا ہے،وہ بھی ختم ہوجائے گا۔ سنن ترمذی و نسائی میں یہ حدیث حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کے ضمن میں آئی ہے،جبکہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث کے مفہوم کی حدیث خود حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنن ابو داود و ابن ماجہ اور مسندِ احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔[2] خلاصۂ کلام: متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی اس حدیث کو محدّثینِ کرام نے صحیح قرار دیا ہے،لیکن کیا اس سے مسئلہ زیرِ بحث پر استدلال صحیح ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ ان احادیث میں عام پردے کی بات ہے کہ عورت انھیں بھی ڈھانپ کر رکھے،جبکہ نماز کا اس میں کوئی ذکر نہیں ہے اور جس طرح نماز کے لیے بعض ائمہ و فقہا نے چہرے اور ہاتھوں کو مستثنیٰ کیا ہے،ایسے ہی پاؤں کے سلسلے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک یہ ہے کہ نماز میں عورت کا انھیں ڈھانپنا ضروری نہیں ہے،چنانچہ اس سلسلے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اسی(چہرے اور ہاتھوں کو نماز میں ننگا کرنے کی)طرح پاؤں کو ننگا کرنا بھی امام ابو
Flag Counter